قیام پاکستان سے اب تک پولیس کا نظام بے دریغ تبدیلیوں کے باوجود فری ہینڈ نہیں ہو سکا نہ ایک میرٹ پر مبنی بھرتی کا نظام لایا گیا ہمیشہ سیاسی بنیادوں پر من مرضی سے بھرتیاں کی گئی پھر ان کو من مرضی سے استعمال میں لاتے ہوئے پولیس گردی کے ذریعے حکومتیں کی جا رہی ہیں
زندہ مثال سمبر ٹیال کا الیکشن ہے جو ایک حلقے کا الیکشن نہیں ہے بلکہ پوری پاکستانی قوم کے لیے لمحہ فکریہ ہے جہاں پولیس کنٹینرز لگا کر اور پریزڈنگ افسروں کو اپنی نگرانی اور من مرضی سے ووٹوں سے بھرے ہوئے بکس رکھنے پر مجبور کر رہی ہے تحریک انصاف کے ووٹرز کو انے نہیں دیا جا رہا ان کے لیے مقدمات روڑے اٹکانا املاک کی تباہی کاروباروں کو ختم کرنا یہ کام پولیس کا تو نہیں تھا پولیس نے چادر اور چار دیواری کا تحفظ امن و امان کے قیام کو یقینی بنا کر رات کو غریب امیر کو چین سے سونے کے لیے اطمینان بخش ماحول فراہم کرنا تھا لیکن اس کے برعکس حکمرانوں کے اقتدار کو طوالت دینے انہیں تحفظ فراہم کرنے وی وی ائی پی ڈیوٹیز اور پھر ایک نیا کام کہ جب اشرافیہ کے وہ نوجوان یا بزرگ جب کسی کو سرعام سڑک پر مارتے ہیں اور ان کی سوشل میڈیا پر ویڈیو ریلیز ہو جاتی ہے تو فوری طور پر تھانے لے جانا ان کی تصویر فوٹو سیشن کے طور پر سوشل میڈیا پر جاری کرنا اور پھر انہیں اس حوالات سے نکال دینا کیا یہ اس پولیس کا کام تھا
کیا پاکستان کے عوام کا مقدر یہی رہ گیا ہے کہ وہ مار کھاتے رہیں وہ ناجائز مقدمات میں پھنسائے جاتے رہیں ان کے کاروبار تباہ کیے جاتے رہیں اور وہ کون لوگ ہوں جو ان کے ٹیکسوں سے تنخواہ پا رہے ہوں اور ان کے بدن پر پولیس کی وردی بھی ہو تو اس پر دکھ کیا جا سکتا ہے اور کیا کیا جا سکتا ہے کیونکہ 77 سال گزر گئے ہیں اس پاکستان کو لیکن پولیس میں جب بھی کوئی نظام لایا گیا وہ ان حکمرانوں کے تابع ہی رہا یہی ان کی بھرتی کر کے ان سے کام لے رہے ہیں جیسا کہ ماضی میں گھڑے کی مثال دی جاتی تھی کہ شہنشاہ نے راستے میں گھڑا رکھوا دیا تاکہ ٹھنڈا پانی مسافروں کو میسر آئے پھر اس پر ایک نگران پھر اس کے اوپر ایک اور نگران پھر گھڑے کو پانی بھرنے والے کئی افراد پھر ان کا حساب کتاب رکھنے کے لیے الگ سے دفتر لیکن مقصد پورا نہ ہو سکا اسی مثال کو دیکھتے ہوئے کہ جب کسی فیصلے کا منطقی انجام نہ لینا ہو تو پھر مختلف کمیٹیاں ترتیب دی جاتی ہیں
ایک کے اوپر ایک کمیٹی ایک کے اوپر ایک کمیٹی تاکہ اس کا فیصلہ ہی نہ ہو سکے 77 سال پاکستان میں یہی تجربے ہو رہے ہیں اسی طرح سے ہی عوام کو مضبوط پائیدار امن و امان کی صورتحال چادر چار دیواری کا تحفظ ازادی اظہار رائے اختلاف رائے رکھنے کی تمام سہولیات احتجاج ایسے بنیادی حق کو دینا لیکن اس کے برعکس ہو یہ رہا ہے کہ اپنی حکومت کے اس ٹینیور کو سیکور کرنے کے لیے کہ ہمیں نہ چھیڑا جائے ہم جو کچھ کر جائیں مختلف قوانین اور پولیس کو استعمال کیا جاتا رہا ہے کیا جا رہا ہے 77 سالوں سے عوام یہ تجربات دیکھ رہی ہے جیسا کہ حالیہ پولیس ایک سیاسی جماعت کو ختم کرنے کے لیے جس کی مقبولیت روز بروز عوام میں بڑھتی جا رہی ہے کے اراکین اسمبلی سے لے کر ادنی سے کارکن پر مقدمے قائم کرنا انہیں ناجائز معاملات میں الجھانا ان کے کاروباروں کو ختم کرنا انہیں احتجاج کے حق سے محروم رکھنا ان کے راستے روکنے کے لیے ہر وہ قدم اٹھانا جب پولیس سے ایسا کام لیا جائے گا جو ان کے مینڈیٹ میں بھی نہیں ہے تو وہاں ان اداروں میں وہ نااقبت اندیش افسران و اہلکار جو 50 سالوں سے باری باری دو ہی جماعتیں حکومتوں میں موجود ہیں اور انہی کے ہی بھرتی کردہ افسران اور اہلکار خدمات سرانجام دے رہے ہیں وہ کس طرح سے اپنی ڈیوٹی سر انجام دے سکیں گے جب انہیں بھرتی بھی سیاسی بنیادوں پر کیا جائے گا چہ جا کہ یہ کہ میرٹ کی بالادستی کا نام لیا جائے ہے
پنجاب میں بھی یہی صورتحال ہے بہت بڑا صوبہ ہے 41 اضلاع ہیں 136 تحصیلیں ہیں اور ان سب میں امن و امان کو قائم رکھنا ایک یونٹ کے تحت اس کے مشکل مرحلہ ہوتا ہے اس لیے پنجاب پر حکمران ایک ہی پارٹی جو طویل عرصے سے رول کر رہی ہے نت نئے ٹائٹل سے فورس کو گرمانے کے لیے اور عوام کی بہتر خدمت کے لیے سوگن دے دیے جاتے ہیں اربوں روپے فنڈز بھی مہیا کیے جاتے ہیں لیکن نتائج کو دیکھا جائے تو خاطرخواہ حصول ممکن نہیں ہو پایا ہے کیونکہ ان ٹائٹل کے تحت جو فورسز بھی کام کرتی ہیں بنیادی طور پر وہ پولیس سے لیے جاتے ہیں الگ سے تھانے بنا دیے جائیں خواتین کے الگ تھانے ہوں یا مختلف ڈیپارٹمنٹ ترتیب دے دیے جائیں لیکن فورس افرادی قوت وہ پولیس سے ہی لیے جاتے ہیں ایسی پولیس جو اپنے کردار میں مورال میں اج بھی اتنی بہتر نہیں ہے نہ اپنے اپ کو بہتر کر پائی ہے سیاسی نظام کے انڈر کام کرنے کی وجہ سے اسے فری ہینڈ کبھی نہیں ملا جو عوام کو ڈلیور کرنے کے لیے ضروری ہوتا ہے اگر ان ڈیپارٹمنٹ کو قائم کرنا ہے تو نئی بھرتیاں کی جائیں فریش پڑھے لکھے نوجوان لیے جائیں انہیں سائنٹفک بنیادوں پر ملک اور بیرون ملک تربیت دی جائے ورنہ یہاں تو یہی حالت ہے کہ اگر کسی کو بیرون ملک تربیت بھی دی جاتی ہے تو وہ بھی بہت بڑی سفارش کا حامل ہوتا ہے اور اکثر حکمران طبقوں سے ہی کوٹا سسٹم کے تحت ایک ہی خاندان کے ہزاروں افراد خدمات پر مامور ہیں
عوام کو امن و امان کی معیاری سہولیات اور چادر چار دیواری کے تحفظ جرائم کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ ان ٹائٹل کے نیچے نئی فورسز قائم کی جائیں کیونکہ اگر اضلاع کی سطح پر دیکھا جائے تو بڑھتی ابادی کے مطابق یہ فورس بہت کم ہے ایک تھانے کی حدود میں جتنی ابادی ہے اتنی اس تھانے میں فورس ہی نہیں ہے پھر وہاں سے ہی افرادی قوت لے کر نئے سلوگن اور ٹائٹل کے تحت بننے والے اداروں اور ڈیپارٹمنٹ کو دے دیا جائے تو کارکردگی نہ ہونے کے برابر رہ جائے گی اربوں روپے کے یہ فنڈز بھی ضائع جائیں گے اور عوام کے پلے بھی کچھ نہیں پڑے گا پھر ان فورسز میں سزا جزا کے کم عمل کی وجہ سے اور سیاسی عمل دخل کی بنیاد پر جو مختلف الزامات کے حامل افسران و اہلکار بھی خدمات سرانجام دے رہے ہوتے ہیں وہی ادھر سے ادھر کر دیے جاتے ہیں تو یہ بے سود اور بے فائدہ سی بات ہے اس کو فروٹ فل بنانے کے لیے اور عوام کو ڈلیور کرنے کے لیے حکمران ان پر غیر جانبدارانہ پالیسی ترتیب دیں اور سیاسی پارٹیاں کچلنے کی بجائے ان اداروں کے جو اصل کام ہیں ان پر ہی انہیں سختی سے پابند کیا جائے باز پرس کی جائے تب مطلوبہ نتائج برآمد ہو سکتے ہیں جیسا کہ پنجاب پولیس کی ذیلی فورسز: مقاصد، کام کرنے کی صلاحیت اور افرادی قوت میں پنجاب پولیس پاکستان کا سب سے بڑا پولیس ڈیپارٹمنٹ ہے، جو مختلف ذیلی فورسز پر مشتمل ہے۔
ہر فورس کا الگ مقصد، طریقۂ کار اور افرادی ڈھانچہ ہوتا ہے۔ ان فورسز کی موجودگی نہ صرف قانون نافذ کرنے میں معاون ہے بلکہ جرائم، دہشت گردی اور ٹریفک کے مسائل جیسے چیلنجز سے نمٹنے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔
1. ایلیٹ پولیس فورس
مقاصد:ایلیٹ فورس کا قیام دہشت گردی، ہائی پروفائل مجرموں، اغواء برائے تاوان اور انتہائی خطرناک کارروائیوں سے نمٹنے کے لیے کیا گیا۔ یہ فورس خاص طور پر کاؤنٹر ٹیررزم آپریشنز اور وی آئی پی سیکیورٹی میں مہارت رکھتی ہے۔کام کرنے کی صلاحیت:
ایلیٹ فورس جدید اسلحہ، بلیٹن پروف گاڑیوں، نائٹ وژن اور خصوصی تربیت یافتہ جوانوں پر مشتمل ہے۔ یہ فورس انتہائی خطرناک صورتحال سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
افرادی قوت:ہزاروں اہلکار اس فورس میں خدمات انجام دے رہے ہیں، جنہیں انسداد دہشت گردی، قافلے کی سیکیورٹی، اور سرچ آپریشنز میں خصوصی تربیت دی جاتی ہے۔
2. ٹریفک پولیس
مقاصد:ٹریفک کا نظم و ضبط برقرار رکھنا، حادثات کی روک تھام، اور قوانین کی خلاف ورزی پر کارروائی ٹریفک پولیس کی بنیادی ذمہ داریاں ہیں۔کام کرنے کی صلاحیت:
جدید چالان سسٹم، الیکٹرانک مانیٹرنگ، اور روڈ سیفٹی مہمات کے ذریعے ٹریفک پولیس شہریوں کو قوانین کا پابند بنانے میں کوشاں ہے۔افرادی قوت:لاکھوں شہریوں کی نقل و حرکت سنبھالنے کے لیے ہزاروں اہلکار سڑکوں پر متحرک رہتے ہیں، خاص طور پر شہری علاقوں میں۔
3. پنجاب ہائی وے پٹرول (PHP)
مقاصد:پی ایچ پی کا مقصد بین الاضلاعی اور ہائی وے سڑکوں پر جرائم کی روک تھام اور مسافروں کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔کام کرنے کی صلاحیت:
یہ فورس گشت پر مامور ہوتی ہے اور فوری رسپانس، مسافر شکایات، اور حادثات میں ابتدائی مدد فراہم کرتی ہے۔ ان کی گاڑیاں جدید کمیونیکیشن سسٹم سے لیس ہوتی ہیں۔
افرادی قوت:ہزاروں اہلکار صوبے بھر میں مختلف ہائی ویز پر تعینات ہیں اور 24 گھنٹے سروس فراہم کرتے ہیں۔
4. سپیشل برانچ
مقاصد:یہ ایک خفیہ ایجنسی ہے جو انٹیلی جنس جمع کرنے، سیاسی و مذہبی سرگرمیوں کی نگرانی، اور وی آئی پی موومنٹ سے متعلق اطلاعات فراہم کرتی ہے۔
کام کرنے کی صلاحیت:سپیشل برانچ کے افسران سول کپڑوں میں کام کرتے ہیں، جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہیں اور قومی سلامتی کے اہم معاملات پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔افرادی قوت:اس برانچ میں تجربہ کار افسران اور تربیت یافتہ انٹیلیجنس اسٹاف شامل ہیں، جن کی تعداد محدود مگر مؤثر ہوتی ہے۔
5. کاؤنٹر ٹیررزم ڈیپارٹمنٹ (CTD)
مقاصد:دہشت گردی، انتہا پسندی، اور ممنوعہ تنظیموں کے خلاف کارروائی CTD کی اہم ذمہ داری ہے۔کام کرنے کی صلاحیت:
CTD جدید انویسٹی گیشن یونٹس، فرانزک معاونت، اور انٹیلیجنس نیٹ ورک سے لیس ہے۔ یہ فورس پاکستان میں دہشت گردی کے کئی بڑے واقعات کی تحقیقات میں اہم کردار ادا کر چکی ہے۔
افرادی قوت:یہ فورس اعلیٰ تربیت یافتہ افسران اور اہلکاروں پر مشتمل ہے، جنہیں ملکی اور غیر ملکی سطح پر انسداد دہشت گردی کی تربیت دی گئی ہے۔
6. کرائم انویسٹیگیشن ایجنسی (CIA)
مقاصد:سنگین جرائم، منظم جرائم پیشہ گروہوں، اغواء، ڈکیتی، اور دیگر اہم کیسز کی تفتیش سی آئی اے کے ذمے ہوتی ہے۔کام کرنے کی صلاحیت:
یہ فورس روایتی انویسٹیگیشن ٹیکنیکس کے ساتھ ساتھ سائبر ٹولز، فرانزک شواہد، اور انٹیلیجنس انٹرفیس سے فائدہ اٹھاتی ہے۔سی آئی اے کے اہلکار عام پولیس سے الگ تربیت یافتہ ہوتے ہیں اور خفیہ تفتیش میں مہارت رکھتے ہیں۔
پنجاب پولیس کی یہ ذیلی فورسز اپنے اپنے دائرہ کار میں نہایت اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ ان کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی، مزید تربیت، اور عوامی تعاون کی ضرورت ہے۔ اگر ان فورسز کو مضبوط اور خودمختار بنایا جائے تو وہ نہ صرف جرائم کی شرح میں کمی لا سکتی ہیں بلکہ امن و امان کے قیام میں بھی ایک سنگ میل ثابت ہو سکتی ہیں۔ ان سب مداروں میں کام کرنے والوں کی تمام افرادی قوت پولیس سے لی جاتی ہے اور اضلاع میں یہ ڈی پی او کے ماتحت کام کرتے ہیں ریجیم سسٹم کے تحت ڈویژن صوبے میں ایک مکمل سیکرٹریٹ کے نیچے تمام اپنی اپنی کارکردگی کو رپورٹ کرتے ہیں یہ ایک وسیع پیمانے پر ملازمت فراہم کرنے کا ذریعہ ضرور ہیں دفاتر میں بیٹھے ہزاروں اہلکاروں کو روزگار ضرور میسر ا رہا ہے لیکن اج ڈیجیٹل انفارمیشن ٹیکنالوجی کے زمانے میں جہاں سائنٹیفک جرائم جنم لے چکا ہے اسے ختم کرنا نہایت احتیاط اور تربیت یافتہ افراد کا کام ہے
گلوبل ویلج دنیا سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پنجاب پولیس ان ڈیپارٹمنٹس میں نئی بھرتیاں کرے اور نوجوانوں کو اندرون و بیرون ملک بہترین تربیت اور جدید ترین ایکوپمنٹ دی جائیں تاکہ وہ جرائم کا خاتمہ کر کے پنجاب میں ایک نئی تاریخ رقم کر سکیں ورنہ یہ نام کے ڈیپارٹمنٹ ہوں گے اور اسی پولیس سے انے اور جانے میں لگے رہیں گے مطلوبہ نتائج کا حصول ممکن نہیں ہو پائے گا