بچپن میں ہم نلکے کا پانی پیا کرتے تھے اور آب و ہوا صاف ہوا کرتی تھی، مگر اب بڑھتی ہوئی مشینی دنیا سے بوڑھوں اور بچوں کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہے۔
ہماری دوسری جماعت کی اردو کی کتاب میں ایک کہانی ہوا کرتی تھی ’’ایک کشتی کی آپ بیتی‘‘ جس میں کشتی بتاتی تھی کہ میں ایک کشتی ہوں، میں پہلے ایک آم کا درخت ہوا کرتی تھی، ہر سال مجھے آم لگتے اور لوگ آم توڑ کر کھاتے تھے۔ ایک دن کچھ لوگ مجھے دیکھنے آئے اور میرے صحت کے مطابق میری قیمت طے کر دی گئی۔ میں نے لاکھ شور مچایا، منت سماجت کی لیکن لکڑ ہارے نے میری ایک نہ سنی اور آری کی مدد سے مجھے کاٹ دیا گیا۔ ریڑھی پر لاد کر مجھے بڑے آرے پر لے جایا گیا۔ جہاں مجھے چیر کر بڑے بڑے تختے بنا کر بڑھئی کے حوالے کر دیا گیا۔ بڑھئی نے میرے تختوں کی تراش خراش کی اور بڑے لوہے کے کیل ٹھونک کر میری کشتی بنا دی۔ مجھے ہر بار بہت تکلیف ہوئی اور میں نے ہر بار منت سماجت کی لیکن میری کسی نے ایک نہ سنی۔ پھر مجھے رنگوں کے ساتھ سجا کر ٹھنڈے پانی میں اتار دیا گیا۔ جب میں درخت تھی تو لوگوں کو آرام و سکون مہیا کرتی تھی اتنے ظلم سہنے کے بعد اب میں کشتی ہوں تو بھی لوگوں کو آرام و سکون ہی مہیا کرتی ہوں۔
اس کہانی میں ہمیں بتایا گیا تھا کہ درخت بہت بڑا سرمایہ اور ہرحال میں فائدہ مند ہوتے ہیں اس لیے ان کی حفاظت کریں۔ لیکن اب کتابوں میں وہ اسباق رہے نہ وہ گھنے، ٹھنڈے جنگل۔ رفتہ رفتہ ہوا آلودہ اور زیر زمین پانی جان ہوتا جا رہا ہے۔ رائٹ ٹو انفارمیشن لاء کے تحت ملنے والی معلومات کے مطابق ضلع لیہ کا جنگل 42494 ایکڑ 6 کنال اراضی پر مشتمل ہے۔ (مختلف سرکاری اداروں اور کھیل کے میدانوں کو جنگلات کی زمین منتقل کی جاتی رہی ہے البتہ جنگل کے ابتدائی رقبہ بارے معلومات حاصل نہیں ہو سکیں)۔ اس جنگل میں گزشتہ ایک سال کے اندر 5 لاکھ 82 ہزار 252 پودے لگائے گئے ہیں اور وفاقی حکومت کی جانب سے جاری تسنامی منصوبے کے تحت 10 لاکھ سے زائد پودے لگائے جائیں گے۔ جن میں سفیدہ، کیکر، شریں، نیم اور پیلکن وغیرہ شامل ہیں۔ درخت ہوا کے ساتھ پانی کو بھی فلٹر کرنے کا بڑا ذریعہ ہیں اور ضلع لیہ کو قدرت نے جتنی بڑی فلٹریشن انڈسٹری سے نوازا گیا ہے اگر اسے سنبھال لیا جائے تو ہمیں کبھی آب و ہوا کے مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
مسائل سے دوچار محکمہ جنگلات لیہ کا ورکنگ پلان گزشتہ 30 سال سے نہیں بن سکا۔ کالاباغ سے آنے والی ٹیل نہر میں بھی آخری ضلع لیہ ہونے کی وجہ سے پانی کم آتا ہے۔ ضلع لیہ میں 10 ٹیوب ویل آپریٹرز کی آسامیوں میں سے 7 ٹیوب ویل آپریٹرز ہونے کے باوجود ایک بھی ٹیوب ویل موجود نہیں۔ حکومت پودے لگانے کے ساتھ ساتھ اگر لیہ کے جنگل کو ٹیوب ویل مہیا کر دے تو بہت جلد ہم اسے ہرا بھرا دیکھ سکیں گے۔ ڈسٹرکٹ ایریگیشن افیسر کا کہنا ہے کہ ابتدائی وقت کے بانسبت اب زرعی زمینیں زیادہ آباد ہوجانے کی وجہ سے پانی کی فراہمی کم ہوئی ہے۔
ڈسٹرکٹ فاریسٹ آفیسر لیہ محمد طارق سناواں کے مطابق محکمہ جنگلات لیہ نے گزشتہ 10 سال کے دوران تقریبا 1 ارب 10 کروڑ روپے کما کر حکومت کو دیے ہیں اور لکڑی چوروں کے خلاف جاری 1720 مختلف نوعیت کے مقدمات میں سے 150 سے زائد مقدمات کی برآمد شدہ لکڑی نیلام کرکے رقم حکومتی خزانے میں جمع کروائی ہے۔ جنگلات کی بہتری کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ فنڈز کی کمی کے پیش نظر لوگ اپنی مدد آپ کے تحت درخت لگانے میں ہمارا ساتھ دیں۔
پاکستان گزشتہ 10 برسوں میں بدترین سیلابوں، طوفانوں، بارشوں اور ہیٹ اسٹروک سمیت کئی قدرتی آفات کا سامنا کر چکا ہے۔ اگر ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کےلیے موثر حکمت عملی تیار نہ کی گئی تو آنے والے سالوں میں پاکستان خشک سالی کا شکار ہوسکتا ہے کیونکہ ہمارے پاس پانی کے ذخائر ختم ہوتے جا رہے ہیں جبکہ بڑھتا ہوا درجہ حرارت پاکستان کی ہزاورں منجمد جھلیوں کی بقا کےلیے بڑا خطرہ بن چکا ہے۔
سائنسدانوں نے متنبہ کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کیڑوں کو مزید تباہ کن بنا رہی ہے۔ خاص طور پر ٹڈی دل کے حملے 60 سے زائد ممالک میں زرعی نقصان پہنچا کر خوراک کی کمی کا خطرہ پیدا کر سکتے ہیں۔ صحرائی ٹڈے جلد ہی جھنڈ بنا لیتے ہیں اور یہ فصلوں کے لیے نقصان دہ ہیں۔ سنہ 2018 میں کی جانی والی تحقیق کے مصنف کرٹس ڈوشے لکھتے ہیں ’’خطِ استوا کے قریب واقع علاقوں کے علاوہ گرم درجہ حرارت کیڑوں کی تولیدی شرح میں اضافہ کرے گا۔ آپ کے پاس زیادہ کیڑے ہوں گے اور وہ زیادہ خوراک کھائیں گے‘‘۔
ماہر قانون مہر اسلم ارشد خان سیہڑ ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ 80 کی دہائی میں لیہ کا جنگل اتنا گھنا تھا کہ سڑک پر سفر کرتے خوف آتا تھا۔ جنگلی جانور اور پرندے سڑک پر نظر آتے تھے۔ لیکن اب جنگل کی حالت کے پیش نظر درخت کاٹنے والوں کی پشت پناہی کرنے والے عناصر کے خلاف کارروائیوں کی اشد ضرورت ہے۔
اقوام متحدہ کی تنظیم برائے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان میں جنگلات مجموعی طور پر کل 16 لاکھ 17 ہزار ہیکٹر رقبے پر ہیں جو مجموعی ملکی رقبے کا محض 2.2 فیصد بنتا ہے۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں جنگلات کی شرح میں کمی والے کل 143 ملکوں کی فہرست میں پاکستان 113 نمبر پر موجود ہے۔
جیسے جیسے درجہ حرارت میں اضافہ ہوگا ویسے ویسے ہی زمین پر زندگی کم ہوتی جائے گی۔ اسی وجہ سے موجودہ حالات میں اقوام عالم ماحولیاتی تبدیلیوں سے بچاؤ کے اقدامات کےلیے منصوبہ بندی میں مصروف عمل ہیں لیکن پاکستان اس وقت ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے دسویں ملک میں شمار کیا جاتا ہے۔ ہم پودے لگانے کا پلان تو بنا رہے ہیں مگر پانی دینے کے حوالے سے کوئی خاطر خواہ اقدامات ہوتے نظر نہیں آ رہے۔ اگر بروقت ماحولیاتی بہتری کے اقدامات نہ کیے گئے تو خشک سالی، بیماریاں اور شدید گرمی ہمارا مقدر ہوگی۔
9 دسمبر 2019 کر میری لکھی گئی ایک تحقیقاتی رپورٹ۔۔۔۔۔