بھارت کی جانب سے پانی چھوڑنے کے بعد دریائے راوی، چناب اور ستلج میں آنے والے سیلاب نے پنجاب میں تباہی مچا دی ہے۔
بھارت سے آنے والے ریلوں سے قبل مسلسل بارشوں کے باعث پہلے ہی پنجاب کے بڑے دریاؤں میں پانی کے بہاؤ میں اضافہ ہو رہا تھا لیکن جب بھارت نے دریائے راوی میں 2 لاکھ کیوسک پانی چھوڑا تو تینوں دریا بپھر گئے اور ہر طرف تباہی مچ گئی۔پنجاب میں انتہائی اونچے درجے کے سیلاب کے باعث 8 اضلاع میں پاک فوج سے مدد طلب کی گئی ہے۔
لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ بھارت کی جانب سے چھوڑے گئے 2 لاکھ کیوسک پانی کی لیٹر کے حساب سے کتنی مقدار ہوگی؟
اس کے لیے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ آخر کیوسک کا مطلب کیا ہے؟
جس طرح وزن کے لیے کلو گرام، فاصلے کے لیے کلومیٹر اور رقبے کے لیے مرلہ وغیرہ کے پیمانے استعمال کیے جاتے ہیں، اسی طرح مائع یا سیال چیزوں کے بہاؤ اور خاص طور پر دریاؤں اور نہروں کے بہاؤ کی پیمائش کے لیے جو پیمانہ استعمال کیا جاتا ہے اسے ‘کیوسک’ کہا جاتا ہے۔کیوسک (Cusec) دراصل کیوبک (مکعب) فٹ فی سیکنڈ لفظ کا مخفف ہے۔
کیوسک (Cusec) کیا ہے اور پانی کے بہاؤ میں اس کی اہمیت
دنیا میں پانی زندگی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ انسانی بقا، زرعی ترقی، صنعتی پیداوار اور شہروں کی آبادی سبھی پانی پر منحصر ہیں۔ لیکن پانی کو محض استعمال کرنے سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ اس کی مقدار اور بہاؤ کو باقاعدہ طور پر ناپا اور سمجھا جائے تاکہ فیصلے درست بنیادوں پر کیے جا سکیں۔ پانی کی پیمائش کے لیے مختلف اکائیاں استعمال کی جاتی ہیں، جن میں سب سے زیادہ معروف اکائی کیوسک ہے، جو دنیا بھر میں خصوصاً برصغیر میں آج بھی استعمال ہوتی ہے۔
کیوسک انگریزی اصطلاح "Cubic feet per second” کا مخفف ہے، جس کا مطلب ہے فی سیکنڈ ایک مکعب فٹ پانی کا بہاؤ۔ دوسرے لفظوں میں کہا جائے تو اگر کسی نہر یا دریا سے ہر سیکنڈ میں ایک کیوبک فٹ پانی گزرتا ہے تو یہ ایک کیوسک کہلاتا ہے۔ اس اکائی کو زیادہ آسانی سے سمجھنے کے لیے اسے لیٹر یا گیلن میں بدلا جا سکتا ہے۔ ایک مکعب فٹ پانی تقریباً 28.3 لیٹر کے برابر ہوتا ہے، لہٰذا ایک کیوسک کا مطلب ہوا فی سیکنڈ تقریباً 28.3 لیٹر پانی۔ اسی حساب سے ایک کیوسک تقریباً 6.25 گیلن فی سیکنڈ بھی بنتا ہے۔
اب اگر بڑے پیمانے پر دیکھیں تو ایک ہزار کیوسک کا مطلب ہے فی سیکنڈ 28,300 لیٹر پانی۔ جبکہ پچاس ہزار کیوسک کا مطلب ہے فی سیکنڈ 14 لاکھ 15 ہزار لیٹر سے زیادہ پانی۔ یہی وجہ ہے کہ جب اخبارات یا محکمہ آبپاشی کی رپورٹس میں یہ لکھا جاتا ہے کہ فلاں بیراج سے دو لاکھ کیوسک پانی کا ریلا گزر رہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ لاکھوں لیٹر پانی فی سیکنڈ کی رفتار سے بہہ رہا ہے۔
کیوسک کی اصطلاح کا استعمال انگریزوں کے دور سے چلا آ رہا ہے۔ برصغیر میں جب نہری نظام قائم کیا گیا تو پانی کے بہاؤ کو ایک معیاری پیمانے پر بیان کرنے کے لیے "Cubic feet per second” کو اختیار کیا گیا۔ آج بھی پاکستان، بھارت اور دیگر ممالک میں بیراجوں اور دریاؤں کے پانی کی پیمائش کے لیے یہی اکائی استعمال کی جاتی ہے۔
پاکستان جیسے زرعی ملک میں کیوسک کی اہمیت بے حد زیادہ ہے۔ ہماری زراعت کا انحصار دریاؤں کے پانی پر ہے اور یہ پانی بیراجوں اور نہروں کے ذریعے کھیتوں تک پہنچتا ہے۔ بیراجوں پر پانی کے بہاؤ کو ہمیشہ کیوسک میں ظاہر کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر تربیلا ڈیم سے بعض اوقات ڈیڑھ لاکھ کیوسک پانی چھوڑا جاتا ہے، کوٹری بیراج سے دو لاکھ کیوسک تک کا اخراج ممکن ہوتا ہے جبکہ دریائے چناب میں برسات کے موسم میں پانچ لاکھ کیوسک تک کے ریلے آ سکتے ہیں۔ یہ تمام اعداد و شمار اگر لیٹر یا گیلن میں بتائے جائیں تو نہ صرف پیچیدہ ہو جائیں گے بلکہ سمجھنے میں بھی دشواری ہوگی، اس لیے کیوسک ایک معیاری اور آسان اکائی سمجھی جاتی ہے۔
سیلاب کی صورتحال کو سمجھنے کے لیے بھی کیوسک بنیادی پیمانہ ہے۔ محکمہ موسمیات اور محکمہ آبپاشی جب سیلابی الرٹ جاری کرتے ہیں تو وہ پانی کے بہاؤ کو کیوسک میں ظاہر کرتے ہیں۔ اگر کسی دریا میں پچاس ہزار کیوسک پانی بہہ رہا ہو تو اسے نچلے درجے کا سیلاب کہا جاتا ہے۔ ایک لاکھ سے تین لاکھ کیوسک کو درمیانے درجے کا سیلاب اور تین لاکھ سے زیادہ کیوسک کو اونچے درجے کا سیلاب قرار دیا جاتا ہے۔ اسی پیمائش کی بنیاد پر انتظامیہ نشیبی علاقوں کے لوگوں کو بروقت نکالنے یا ریسکیو ٹیموں کو متحرک کرنے کے اقدامات کرتی ہے۔
زرعی پیداوار کے لیے بھی یہ اکائی بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔ کسان جب سنتے ہیں کہ ان کی نہر میں تین ہزار کیوسک پانی چھوڑا گیا ہے تو وہ اس بات کا اندازہ لگا لیتے ہیں کہ ان کے کھیتوں کو کتنا پانی دستیاب ہوگا۔ فی سیکنڈ لاکھوں لیٹر پانی کھیتوں تک پہنچنے کا مطلب ہے کہ ہزاروں ایکڑ زمین سیراب ہو سکے گی۔ اس طرح کیوسک صرف ایک پیمائش نہیں بلکہ کاشتکاری کی منصوبہ بندی اور زرعی معیشت کا اہم حصہ ہے۔
ڈیموں اور بیراجوں کی گنجائش بھی کیوسک میں ہی ناپی جاتی ہے۔ تربیلا ڈیم کے اسپل ویز بیک وقت ساڑھے چھ لاکھ کیوسک پانی گزرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ منگلا ڈیم میں دو لاکھ پچاس ہزار کیوسک تک پانی ذخیرہ اور خارج کیا جا سکتا ہے۔ کوٹری بیراج سے نو لاکھ کیوسک تک کا ریلا گزر سکتا ہے۔ ان اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ پانی کے ذخائر اور ان کے انتظام میں کیوسک کی پیمائش کس قدر بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔
بجلی پیدا کرنے والے ہائیڈرو پاور پلانٹس کے لیے بھی پانی کے بہاؤ کو کیوسک میں ناپا جاتا ہے۔ جتنا زیادہ پانی ٹربائن سے گزرتا ہے اتنی ہی زیادہ بجلی پیدا ہوتی ہے۔ اگر کسی پاور پلانٹ کے لیے بیس ہزار کیوسک پانی درکار ہے لیکن دریا میں دس ہزار کیوسک پانی موجود ہے تو پلانٹ نصف استعداد پر چلے گا۔ تربیلا اور منگلا جیسے بڑے منصوبے اپنی پیداوار کا انحصار اسی پیمائش پر کرتے ہیں۔
عام لوگوں کے لیے یہ سمجھنا بھی آسان ہے کہ ایک کیوسک عملی طور پر کتنا پانی ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک بڑا ٹینکر ٹرک بارہ ہزار لیٹر پانی لے کر چلتا ہے۔ چونکہ ایک کیوسک تقریباً اٹھائیس لیٹر فی سیکنڈ ہوتا ہے، اس لیے صرف سات منٹ میں ایک کیوسک کے بہاؤ سے پورا ٹینکر بھر سکتا ہے۔ اسی طرح ایک ہزار کیوسک پانی فی سیکنڈ تقریباً پچاسی ٹینکرز کے برابر ہے۔ یہ مثال عام قاری کو اس اکائی کے حجم کا عملی تصور دیتی ہے۔
بین الاقوامی سطح پر بھی پانی کی تقسیم کے معاہدوں میں کیوسک کا استعمال ہوتا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان 1960 کا سندھ طاس معاہدہ ہو یا کسی اور سطح پر پانی کے تنازعات، سبھی میں پانی کے بہاؤ کو کیوسک میں ظاہر کیا جاتا ہے۔ جب بھارت اپنے ڈیموں میں پانی روکتا یا چھوڑتا ہے تو پاکستان اس کے اثرات کو کیوسک میں ناپ کر دنیا کو آگاہ کرتا ہے۔
آخر میں کہا جا سکتا ہے کہ "کیوسک” ایک چھوٹا سا لفظ ضرور ہے لیکن اس کے پیچھے پانی کے بہاؤ کی پوری سائنس، معیشت اور منصوبہ بندی چھپی ہوئی ہے۔ چاہے سیلاب کی صورتحال ہو، ڈیموں کی گنجائش ہو، زرعی نہریں ہوں یا بجلی کی پیداوار—ہر جگہ پانی کو سمجھنے کے لیے کیوسک بنیادی اکائی ہے۔ عوام کے لیے بھی اس اکائی کو سمجھنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا ماہرین کے لیے، تاکہ وہ خبروں اور رپورٹس کو صحیح طور پر سمجھ سکیں اور پانی کے بہتر استعمال اور بچت میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔