لیہ:جنوبی پنجاب میں کھجور کی کاشت اور چھوہارے کی تیاری کا نیا باب رقم ہو گیا۔ ضلع لیہ کا یو بی فارم اپنی اعلیٰ معیار کی ڈھکی کھجور کے باعث خلیفہ انٹرنیشنل ایوارڈ کی بیسٹ ڈیٹ کیٹیگری میں شامل ہونے کے لئے تیار ہے۔
خلیفہ انٹرنیشنل ایوارڈ آرگنائزیشن کے تین رکنی وفد نے فارم کا خصوصی دورہ کیا اور باغبان نادیہ عثمان بلوچ کی محنت و کاوش کو بھرپور انداز میں سراہا۔ اس وفد میں خلیفہ انٹرنیشنل تنظیم سے ایوارڈ یافتہ کھجور ریسرچ کے ماہر ڈاکٹر غلام سرور مرکھنڈ اور ایگریکلچر ریسرچ انسٹیٹیوٹ ڈیرہ اسماعیل خان کے انچارج فوڈ ٹیکنالوجی سیکشن ڈاکٹر شہزاد ارشد سلیم سدوزئی بھی شامل تھے۔
پاکستان دنیا بھر میں کھجور پیدا کرنے والے بڑے ممالک میں پانچویں نمبر پر ہے۔ سعودی عرب، ایران، عراق اور مصر کے بعد پاکستان کا شمار اُن ممالک میں ہوتا ہے جہاں سالانہ تقریباً پانچ لاکھ میٹرک ٹن کھجور پیدا کی جاتی ہے۔ ملک میں سب سے زیادہ کھجور سندھ کے ضلع خیرپور میں پیدا ہوتی ہے جہاں کی پیداوار مجموعی کھجور کا پچاس فیصد سے زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ بلوچستان کے مکران ڈویژن، خیبرپختونخوا کے ڈیرہ اسماعیل خان اور پنجاب کے اضلاع جھنگ، مظفرگڑھ، ڈیرہ غازی خان، راجن پور اور اب لیہ کھجور کی کاشت کے حوالے سے اہمیت اختیار کر رہے ہیں۔
پاکستان میں مختلف اقسام کی کھجوریں اگائی جاتی ہیں، جیسے خیرپور کی اصیل اور کاربلی، ڈیرہ اسماعیل خان کی ڈھکی، بلوچستان کی ہلیلوی اور بیگم جنجیرا۔ یہ کھجوریں متحدہ عرب امارات، بھارت، ترکی، امریکہ، کینیڈا اور یورپی ممالک کو برآمد کی جاتی ہیں۔ خصوصاً خشک کھجور یعنی چھوہارا بڑی مقدار میں بھارت کو بھیجا جاتا ہے، جس سے پاکستان قیمتی زرمبادلہ حاصل کرتا ہے۔
اب ڈیرہ اسماعیل خان کے بعد لیہ میں بھی ڈھکی کھجور کی بڑے پیمانے پر کاشت کا آغاز ہو چکا ہے۔ جنوبی پنجاب میں اس میدان میں پہلا نام یو بی فارم کا ہے، جو ضلع لیہ کے نواحی گاؤں چک نمبر 139 ٹی ڈی اے میں قائم ہے۔ اس فارم پر ابتدائی طور پر تین ایکڑ رقبے پر کھجور کے پودے لگائے گئے جن سے اب باقاعدہ پیداوار حاصل ہونا شروع ہو گئی ہے۔
یو بی فارم ماضی میں نیزہ بازی سمیت گھڑ سواری کے کھیلوں کے حوالے سے ایک نمایاں پہچان رکھتا تھا، مگر اب یہ ڈھکی کھجور کی کاشت اور پیداوار کے حوالے سے بھی شہرت حاصل کر رہا ہے۔ سب سے حوصلہ افزا پہلو یہ ہے کہ جہاں ملک بھر میں زیادہ تر کھجور کے باغات مرد کسانوں کے زیر نگرانی ہیں، وہاں لیہ میں یہ کام ایک خاتون نے سنبھالا ہے۔ یو بی فارم کی چیف ایگزیکٹو نادیہ عثمان بلوچ نے ابتدائی طور پر 24 کنال رقبے پر کھجور کے پودے لگائے، ان کی دیکھ بھال کی اور ان کو اس مقام تک پہنچایا کہ آج یہ بھرپور پیداوار دینے لگے ہیں۔
چیف ایگزیکٹو یو بی فارم نادیہ عثمان بلوچ نے خلیفہ انٹرنیشنل ایوارڈ آرگنائزیشن کی بیسٹ ڈیٹ کیٹیگری میں اپنی درخواست جمع کرائی، جس پر تنظیم کا وفد لیہ آیا اور یو بی فارم کا تفصیلی معائنہ کیا۔ اس موقع پر ڈاکٹر غلام سرور مرکھنڈ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ:
"لیہ کی زمین کھجور کی کاشت کے لئے انتہائی موزوں ہے۔ نادیہ عثمان بلوچ نے یہاں جنگل میں منگل بنایا ہے۔ یو بی فارم صرف ایک باغ نہیں بلکہ ایک ریسرچ سنٹر بھی ہے۔ ڈھکی کھجور کا سائز بڑا اور ذائقہ منفرد ہے، اس سے عالمی معیار کا چھوہارا تیار ہوگا۔ یہ کاشت نہ صرف 60 سے 70 سال تک آمدن فراہم کرتی ہے بلکہ پاکستان کے زر مبادلہ میں اضافے کا بھی ذریعہ بنے گی۔”
ڈاکٹر شہزاد ارشد سلیم سدوزئی نے کہا کہ یو بی فارم اپنی مثال آپ ہے، ڈھکی کھجور ڈیرہ اسماعیل خان کی پہچان ہے اور اب لیہ بھی اس فہرست میں شامل ہو رہا ہے۔ بھارت ڈھکی کھجور کا سب سے بڑا خریدار ہے جہاں اس سے چھوہارا تیار کیا جاتا ہے۔ یو بی فارم کی پیداوار لذت اور معیار میں بہترین ہے۔ محکمہ زراعت کو چاہیے کہ لیہ میں بھی کھجور کے باغات پر خصوصی توجہ دے تاکہ فصل محفوظ بھی رہے اور بہتر پیداوار بھی حاصل ہو۔
نادیہ عثمان بلوچ نے کہا کہ خلیفہ انٹرنیشنل ایوارڈ آرگنائزیشن کا لیہ آنا ایک اعزاز ہے۔ ڈھکی کھجور معیار کے لحاظ سے دنیا میں تیسرے نمبر پر شمار ہوتی ہے۔ ہمارا مقصد ہے کہ لیہ کو کھجور کے نقشے پر نمایاں مقام دلائیں۔ یو بی فارم کو صرف باغ نہیں بلکہ ایک برانڈ اور ریسرچ سنٹر کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کریں۔ ان کے مطابق:
"انسان یا جیتتا ہے یا سیکھتا ہے۔ ہمارا عزم ہے کہ یو بی فارم کو عالمی سطح پر متعارف کرائیں گے، جس سے نہ صرف لیہ بلکہ پاکستان کی معیشت بھی بہتر ہوگی۔”
یو بی فارم کا یونیورسٹی آف لیہ کے ساتھ ویٹرنری، ایگریکلچر اور بزنس کے شعبوں میں ایم او یو بھی سائن ہو چکا ہے جس کے تحت طلباء و طالبات یہاں انٹرن شپ مکمل کر سکیں گے۔ نادیہ عثمان بلوچ کا کہنا تھا کہ خاتون ہونے کے ناطے مشکلات کا سامنا ضرور ہوا مگر والدین اور شوہر عثمان بلوچ کی بھرپور معاونت سے یہ سب ممکن ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی ترقی زراعت سے وابستہ ہے، کسانوں کو چاہیے کہ روایتی فصلوں کے ساتھ ساتھ کھجور جیسے مخصوص باغات کی کاشت پر بھی توجہ دیں تاکہ اچھی آمدن کے ساتھ قومی معیشت بھی مضبوط ہو۔