غزہ کی پٹی ایک بار پھر اسرائیلی فوج کی وحشیانہ بمباری کا نشانہ بنی ہے جس کے نتیجے میں ایک ہی دن میں سو سے زائد فلسطینیوں کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔ طبی ذرائع کے مطابق منگل کی صبح سے اب تک غزہ بھر میں کم از کم 105 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جبکہ درجنوں زخمی ہیں جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔
رپورٹس کے مطابق شہدا میں 32 ایسے افراد شامل ہیں جو وسطی اور جنوبی غزہ میں انسانی امداد کے حصول کے لیے قطاروں میں کھڑے تھے۔ الجزیرہ نے دعویٰ کیا ہے کہ جنوبی غزہ کے علاقے المواسی میں پانی کی تقسیم کے ایک مرکز پر اسرائیلی ڈرون نے نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں کئی بچے موقع پر ہی شہید ہو گئے۔ زخمیوں کو النصر اسپتال منتقل کیا گیا جہاں اسپتال کے عملے نے وسائل کی کمی اور دواؤں کی عدم دستیابی پر شدید تشویش ظاہر کی ہے۔
اسرائیلی فورسز نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کارروائی میں حماس کے رکن حازم نعیم کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔ اسرائیلی فوج کے مطابق حازم نعیم پر الزام تھا کہ وہ غزہ میں 3 اسرائیلی قیدیوں کو حراست میں رکھے ہوئے تھا۔ تاہم حماس کی جانب سے اس الزام کی تردید یا تصدیق میں تاحال کوئی باضابطہ بیان سامنے نہیں آیا۔
جنگ کے ساتھ ساتھ غزہ کے عوام بھوک اور پیاس سے بھی مر رہے ہیں۔ غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران خوراک اور صاف پانی کی کمی کے باعث مزید 13 فلسطینی جاں بحق ہو گئے، جن میں 3 معصوم بچے بھی شامل ہیں۔ اس طرح بھوک اور غذائی قلت کے باعث اموات کی مجموعی تعداد 361 تک پہنچ گئی ہے، جن میں 130 بچے بھی شامل ہیں۔ یہ اعداد و شمار اس انسانی المیے کی شدت کو واضح کرتے ہیں جو محاصرے اور امداد کی رکاوٹوں کے باعث مزید سنگین ہو رہا ہے۔
صورتحال کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ خود اسرائیل کے اندر بھی اس جنگ پر شدید اختلافات سر اٹھا رہے ہیں۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق 300 سے زائد ریزرو فوجیوں نے غزہ میں جاری نیتن یاہو کی جنگ کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ڈیوٹی پر حاضر ہونے سے انکار کر دیا ہے۔ ان فوجیوں نے اسرائیلی قیادت کے خلاف شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی مقاصد کے لیے جاری اس جنگ نے اسرائیل کو عالمی سطح پر تنہا کر دیا ہے۔ فوجیوں نے مطالبہ کیا کہ اسرائیلی رہنماؤں کا احتساب کیا جائے اور انسانی جانوں کے ضیاع کو فوری روکا جائے۔
بین الاقوامی سطح پر بھی غزہ کی صورتحال پر تشویش بڑھتی جا رہی ہے۔ اسپین سے امدادی کشتیوں کا ایک قافلہ خوراک اور ادویات لے کر غزہ کی طرف روانہ ہو چکا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر اسرائیل نے ان کشتیوں کو غزہ پہنچنے سے روکا تو یہ انسانی بحران مزید سنگین ہو جائے گا۔اقوام متحدہ نے ایک بار پھر اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ امدادی سامان کی فراہمی میں رکاوٹ نہ ڈالے اور شہری آبادی کو نشانہ بنانے سے گریز کرے۔ تاہم اسرائیلی حکام ان مطالبات کو نظر انداز کر رہے ہیں۔
غزہ کے مختلف شہروں میں مسلسل بمباری اور حملوں کے باعث بنیادی ڈھانچہ تباہ ہو چکا ہے۔ بجلی، پانی اور انٹرنیٹ جیسی سہولیات تقریباً ختم ہو گئی ہیں۔ مکانات ملبے کا ڈھیر بن گئے ہیں جبکہ ہزاروں افراد پناہ کی تلاش میں دربدر ہیں۔ اسپتال شدید دباؤ کا شکار ہیں اور ڈاکٹروں نے عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ فوری طور پر طبی امداد فراہم کرے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے مسلسل حملوں اور انسانی امداد کی راہ میں رکاوٹوں نے غزہ کے عوام کو دوہری اذیت میں مبتلا کر دیا ہے۔ ایک طرف وہ بمباری کا سامنا کر رہے ہیں اور دوسری جانب بھوک اور پیاس سے مر رہے ہیں۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق اگر اسرائیل نے اپنی پالیسی میں تبدیلی نہ کی تو نہ صرف خطے میں مزید بدامنی پھیلے گی بلکہ عالمی سطح پر اسرائیل کے خلاف دباؤ بھی بڑھتا جائے گا۔
یہ بھی خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ غزہ میں انسانی بحران آنے والے دنوں میں مزید شدت اختیار کر سکتا ہے، خاص طور پر اگر موسم کی سختیوں اور امداد کی کمی کا سلسلہ برقرار رہا۔