واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کے امکانات روشن ہیں اور آئندہ ہفتے تک فریقین کے درمیان مکمل جنگ بندی طے پانے کا امکان ہے۔
وائٹ ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا،ہم غزہ میں جنگ بندی کے بہت قریب ہیں، مجھے امید ہے کہ آئندہ ہفتے تک یہ معاملہ حل ہو جائے گا۔”غزہ سے متعلق بات چیت کے دوران ایران سے متعلق ایک سوال پر ٹرمپ نے خبردار کیا کہ اگر ایران کی جانب سے یورینیم کی افزودگی میں اضافہ ہوا تو امریکا دوبارہ حملے کرنے پر غور کرے گا۔انہوں نے کہا، "اگر ایران نے وہ حد عبور کی جو ہمارے لیے باعث تشویش ہو، تو ہم بمباری کرنے میں ہچکچائیں گے نہیں۔”
صدر ٹرمپ نے بتایا کہ امریکی فضائی کارروائیوں کے ذریعے ایران کی بعض ایٹمی تنصیبات پہلے ہی تباہ کی جا چکی ہیں، اور وہ چاہتے ہیں کہ ان تنصیبات کا معائنہ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی یا کسی معتبر ادارے کے ذریعے کرایا جائے۔صدر ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ ایرانی قیادت ان سے ملاقات کی خواہاں ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے اُس بیان پر جلد جواب دیں گے جس میں قطر میں امریکی فوجی اڈے پر حملے کو "امریکا کے منہ پر تھپڑ” قرار دیا گیا تھا۔صدر ٹرمپ نے اسی موقع پر پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ جنگ بندی پر اظہارِ اطمینان کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کی قیادت نے امن قائم رکھنے میں دانشمندی کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے کہا، "مجھے خوشی ہے کہ ہم نے پاکستان اور بھارت کے درمیان معاملہ تجارت کے ذریعے سلجھایا، یہ دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں اور تنازع سے بچنا انتہائی اہم ہے۔”
امریکی صدر نے کینیڈا سے جاری تجارتی مذاکرات فوری ختم کرنے کا اعلان بھی کیا۔ ان کا کہنا تھا، "کینیڈا سے ڈیل کرنا آسان نہیں، اس لیے ہم نے مذاکرات بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔”اپنی صدارت سے متعلق گفتگو میں ڈونلڈ ٹرمپ نے اس منصب کو "انتہائی خطرناک” قرار دیتے ہوئے کہا کہ کبھی کبھار دل کی دھڑکنیں تیز ہو جاتی ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کسی ریسنگ ڈرائیور یا منہ زور بیل کی سواری پر ہوں۔ انہوں نے کہا کہ صدر ہونے کی حیثیت سے موت کا خطرہ پانچ فیصد ہے، جبکہ بیل کی سواری یا ریسنگ میں یہ خطرہ ایک فیصد ہوتا ہے۔صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ اگر یہ خطرات انہیں پہلے سے معلوم ہوتے تو شاید وہ صدارتی انتخابات میں حصہ ہی نہ لیتے۔
واضح رہے کہ امریکا کی تاریخ میں اب تک چار صدور کو قتل کیا گیا ہے جبکہ کئی دیگر قاتلانہ حملوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔