اسلام آباد: سندھ طاس معاہدے پر بین الاقوامی ثالثی عدالت نے بھارت کے یکطرفہ اقدامات کو معاہدے کے منافی قرار دیتے ہوئے پاکستان کے مؤقف کی مکمل تائید کر دی ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ بھارت کا معاہدے کو معطل کرنے کا عمل اور ثالثی عدالت کے اختیارات کو چیلنج کرنا ناقابل قبول اور غیر قانونی ہے۔
حکومتِ پاکستان نے اس فیصلے پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ عالمی عدالت کی جانب سے پاکستان کے مؤقف کی تصدیق سے ثابت ہوتا ہے کہ بھارت کے یکطرفہ اقدامات بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی ہیں۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سندھ طاس معاہدہ ایک مضبوط قانونی دستاویز ہے اور اس کے تحت ثالثی عدالت کا کردار واضح اور مؤثر ہے۔ بھارت کی جانب سے اس معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل کرنے سے ثالثی عدالت کے اختیارات یا فیصلے کی حیثیت متاثر نہیں ہوتی۔
وزیراعظم شہباز شریف نے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ تمام تصفیہ طلب معاملات—جن میں جموں و کشمیر، پانی، تجارت اور دہشت گردی شامل ہیں—پر بامقصد بات چیت کے لیے ہمیشہ تیار ہے۔یاد رہے کہ سندھ طاس معاہدہ 1960 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان طے پایا تھا جس کی نگرانی عالمی بینک کرتا ہے۔ اس معاہدے کے تحت دونوں ممالک کو مخصوص دریاؤں کے پانی کے استعمال کے حقوق دیے گئے ہیں، تاہم حالیہ برسوں میں بھارت کی آبی پالیسیوں پر پاکستان نے اعتراضات اٹھائے تھے جنہیں ثالثی عدالت میں چیلنج کیا گیا تھا۔