تعلیم کا سفر ہمیشہ آسان نہیں ہوتا، خاص طور پر جب وہ کسی ایسے علاقے میں شروع کیا جائے جہاں سہولتوں کے بجائے محرومیاں ہوں، جہاں روشنی کی جگہ اندھیرا ہو، اور آسائشوں کی جگہ قربانیاں۔لیکن ان ہی حالات میں اگر کوئی بیٹی کامیابی کی مثال بن جائے، تو وہ صرف ایک طالبہ نہیں رہتی — وہ پورے علاقے کی اُمید بن جاتی ہے۔
میری بیٹی امِ حجاب سجاد ایسی ہی ایک روشن مثال ہے۔
📚 تعلیمی سفر کا آغاز:
امِ حجاب نے اپنی ابتدائی تعلیم گورنمنٹ گرلز پرائمری اسکول سے حاصل کی —
ایک چھوٹا سا سرکاری اسکول، جو ریگستانی علاقے میں ایک غنیمت کی مانند تھا۔
پرائمری مکمل کرنے کے بعد علاقے میں نہ کوئی گرلز مڈل اسکول تھا، نہ ہائی اسکول — لیکن بیٹی نے ہار نہیں مانی۔
چھٹی جماعت سے وہ گورنمنٹ ایلیمنٹری بوائز اسکول میں داخل ہوئی، جہاں اسے بطور واحد بچی، لڑکوں کے ساتھ پڑھنا پڑا۔
لیکن نہ ماحول سے گھبرائی، نہ حالات سے — صرف پڑھنے پر یقین رکھا۔
🏫 ہائی اسکول کا چیلنج:
مڈل کے بعد ہائی اسکول کی تعلیم کے لیے بھی گھر کے آس پاس کوئی سہولت نہیں تھی۔
تب اس نے اڈا جمال چھپری کے قریب واقع علامہ اقبال پبلک اسکول میں داخلہ لیا۔
وہاں نویں اور دسویں جماعت کی تعلیم مکمل کی — راستہ کٹھن، سفری سہولت صفر، لیکن حوصلہ بے مثال!
🎉 نمایاں کامیابی:
سال 2025 کے میٹرک امتحانات میں ڈیرہ غازی خان بورڈ کے تحت امِ حجاب نے 989 نمبر حاصل کیے —
نہ کوئی اکیڈمی، نہ کوچنگ، نہ بجلی، نہ انٹرنیٹ…
صرف اساتذہ کی رہنمائی، گھر کی دعائیں اور خود کی محنت۔
🚴♀️ جاری سفر:
اب وہ F.Sc (Pre-Medical) کر رہی ہے —
اور روزانہ 25 کلومیٹر کا ایک طرفہ سفر طے کر کے تعلیم حاصل کر رہی ہے۔
یعنی روزانہ 50 کلومیٹر صرف تعلیم کے لیے — یہ قربانی نہیں تو کیا ہے؟
✨ نتیجہ:
امِ حجاب کی کامیابی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ
> راستے وہی بنتے ہیں جہاں ارادے مضبوط ہوں۔
اور بیٹیاں اگر پڑھنے کا عزم کر لیں، تو ریگستان بھی درسگاہ بن جاتا ہے۔
آج وہ صرف میری بیٹی نہیں —
ہر پسماندہ بیٹی کی آواز ہے
ہر ماں باپ کے خواب کی تعبیر ہے
اور ہر استاد کے خلوص کی پہچان ہے
🌸 اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ امِ حجاب سجاد کو دین و دنیا کی مزید کامیابیاں عطا فرمائے
اور ہماری سرزمین پر علم کی ایسی بیٹیاں مزید جنم لیتی رہیں، آمین۔