محکمہ اطلاعات سندھ کے مطابق ہیڈ پنجند پر پانی کی آمد 2 لاکھ 27 ہزار 710 کیوسک جبکہ اخراج 2 لاکھ 13 ہزار 740 کیوسک ریکارڈ کیا گیا۔ یہ پانی دو دن میں گڈو بیراج پہنچنے کا امکان ہے۔ پنجند وہ مقام ہے جہاں پنجاب کے پانچ بڑے دریاؤں—چناب، جہلم، راوی، ستلج اور بیاس—کا سنگم بنتا ہے۔ یہی مقام سیلابی صورتحال میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ یہ پانی کا دباؤ آگے بڑھ کر سندھ کے بیراجوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔
سیلابی ریلے کے پیش نظر سندھ کے بڑے بیراجوں پر پانی کی آمد اور اخراج کا سلسلہ جاری ہے۔ گڈو بیراج پر پانی کی آمد 3 لاکھ 42 ہزار 153 کیوسک جبکہ اخراج 3 لاکھ 10 ہزار 408 کیوسک ہے۔ سکھر بیراج پر پانی کی آمد 3 لاکھ 31 ہزار 230 اور اخراج 2 لاکھ 75 ہزار 850 کیوسک ریکارڈ کیا گیا۔ اسی طرح کوٹری بیراج پر پانی کی آمد 2 لاکھ 47 ہزار 186 اور اخراج 2 لاکھ 9 ہزار 431 کیوسک ہے۔ یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ فی الحال پانی کی سطح خطرناک حد تک نہیں پہنچی، تاہم آنے والے دنوں میں دباؤ بڑھنے کا امکان ہے۔
سندھ کے وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن کے مطابق صوبے میں جتنا پانی آنے کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا، اصل صورتحال اس سے بہتر ہے اور پانی متوقع اندازے سے کم ہے۔ دوسری جانب وزیر زراعت سندھ محمد بخش مہر نے گڈو بیراج اور کشمور بند کا دورہ کیا اور اطمینان دلایا کہ صورتحال قابو میں ہے اور کسی قسم کے خطرے کی بات نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ 7 لاکھ کیوسک کے ممکنہ ریلے کے لیے انتظامات مکمل ہیں۔ مزید برآں کوٹری بیراج کے مقام پر ریسکیو 1122 کے کیمپ بھی قائم کر دیے گئے ہیں تاکہ ہنگامی صورتحال میں لوگوں کو بروقت مدد فراہم کی جا سکے۔
ماہرین آبیات کے مطابق، دریائے سندھ کی موجودہ صورتحال میں اگرچہ فوری طور پر کوئی بڑا خطرہ نظر نہیں آ رہا، لیکن اگر مون سون بارشوں کا سلسلہ شدت اختیار کرتا ہے تو بیراجوں پر دباؤ میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ ان کے مطابق اگر پانی کا بہاؤ 7 لاکھ کیوسک سے تجاوز کرتا ہے تو سندھ کے نشیبی علاقے زیرِ آب آ سکتے ہیں۔ دریا کے کنارے بستیوں اور کھیتوں میں کٹاؤ کا خطرہ بھی موجود ہے جبکہ بیراجوں کے ڈھانچے پر مسلسل دباؤ کی صورت میں ہنگامی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔
سیلابی صورتحال کا سب سے زیادہ اثر دریا کے کنارے آباد دیہات پر ہوتا ہے۔ پنجند سے لے کر کوٹری تک ہزاروں خاندان دریائے سندھ کے دونوں اطراف میں رہتے ہیں جن کی روزی روٹی کا انحصار کھیتی باڑی اور مویشیوں پر ہے۔ کئی مقامات پر لوگوں نے پہلے ہی اپنے گھر بار چھوڑ کر محفوظ مقامات کا رخ کیا ہے۔ مقامی افراد کے مطابق مویشیوں کے لیے چارہ اور پینے کے پانی کی کمی شدید مسئلہ بن گئی ہے۔ کھڑی فصلیں زیر آب آنے کے خدشے سے کسان پریشان ہیں جبکہ اسکول اور بنیادی مراکزِ صحت بند ہونے کے باعث بچوں اور خواتین کو مشکلات درپیش ہیں۔
دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں کے سیلاب پاکستان کی تاریخ میں کئی بار تباہی مچا چکے ہیں۔ 2010 کا سیلاب پاکستان کی تاریخ کا بدترین سیلاب تھا جس میں تقریباً 2 کروڑ افراد متاثر ہوئے۔ اس کے بعد بھی 2014 اور 2022 کے سیلابوں نے بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا۔ یہ واقعات اس حقیقت کو اجاگر کرتے ہیں کہ سیلابی ریلے محض ایک قدرتی آفت نہیں بلکہ ایک بڑا معاشرتی اور معاشی چیلنج بھی ہیں۔
ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ کلائمٹ چینج کے باعث بارشوں کے پیٹرن بدل رہے ہیں۔ پہلے جہاں بارشیں مخصوص مہینوں تک محدود رہتی تھیں، اب غیر متوقع طور پر کسی بھی وقت شدید بارش ہو سکتی ہے جو دریاؤں میں طغیانی کا سبب بنتی ہے۔ اسی طرح برفانی گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلنے کا سلسلہ بھی دریائے سندھ کے بہاؤ پر براہ راست اثر انداز ہو رہا ہے۔ اس لیے مستقبل میں ایسے سیلابی ریلوں کے امکانات مزید بڑھ سکتے ہیں۔
حکومتی سطح پر بیراجوں اور بندوں کی نگرانی بڑھا دی گئی ہے، مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ صرف ہنگامی اقدامات کافی نہیں۔ مستقل بنیادوں پر بندوں کی مضبوطی و مرمت، نشیبی علاقوں میں قبل از وقت انخلاء کے منصوبے، فصلوں اور مویشیوں کے تحفظ کے لیے خصوصی اسکیمیں، عوامی آگاہی مہمات اور ریسکیو اداروں کی استعداد کار میں اضافہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔
پنجاب کے دریاؤں سے نکلنے والا سیلابی ریلا سندھ کے بیراجوں کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اگرچہ فی الحال صورتحال قابو میں ہے، مگر آنے والے دنوں میں دباؤ بڑھنے کا امکان ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ انتظامات مکمل ہیں، تاہم مقامی آبادی کو اب بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ یہ ریلا ایک بار پھر ہمیں یاد دلاتا ہے کہ پاکستان جیسے زرعی ملک میں پانی نعمت بھی ہے اور آزمائش بھی۔ اگر بروقت اور مربوط منصوبہ بندی نہ کی گئی تو سیلابی ریلے مستقبل میں بھی ہر سال لاکھوں افراد کی زندگیوں کو متاثر کرتے رہیں گے۔