لندن: وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والا حالیہ اسٹریٹجک باہمی دفاعی معاہدہ (SMDA) کوئی نئی پیش رفت نہیں بلکہ دونوں ممالک کے طویل اور مضبوط دفاعی تعلقات کا تسلسل ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ اس معاہدے سے بھارت کی بے چینی اور تنقید فطری ہے، تاہم پاکستان کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
لندن میں میڈیا سے بات کرتے ہوئےخواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی تعاون کی تاریخ 40 سے 50 برس پرانی ہے۔ یہ تعاون وقت اور ضرورت کے مطابق کبھی بڑھتا ہے تو کبھی معمول کی سطح پر آ جاتا ہے۔ ’’یہ معاہدہ بھی اسی تسلسل کا حصہ ہے، اس میں کوئی غیر معمولی یا اچانک بات نہیں‘‘۔
وزیر دفاع نے کہا کہ پاکستان کی کوئی جارحانہ پالیسی نہیں ہے اور یہ معاہدہ صرف اور صرف دفاعی نوعیت کا ہے۔ ان کے مطابق پاکستان خود کئی بار جارحیت کا شکار رہا ہے، خاص طور پر بھارت کی طرف سے، اس لیے پاکستان کے لیے اپنی اور اپنے اتحادیوں کی حفاظت اولین ترجیح ہے۔ ’’یہ معاہدہ تکنیکی اور تربیتی تعاون کو مضبوط کرے گا اور اگر کسی ایک ملک پر حملہ ہوا تو دونوں ایک دوسرے کی مدد کریں گے‘‘۔
خواجہ آصف نے اس معاہدے پر کی جانے والی قیاس آرائیوں کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ بعض عناصر اپنے سیاسی اور ذاتی مقاصد کے لیے اس کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی افواج پہلے ہی سعودی عرب میں موجود ہیں اور اگر اس معاہدے کے تحت وہاں پاکستانی افواج کی موجودگی میں اضافہ ہوتا ہے تو اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔
وزیر دفاع نے مزید کہا کہ بھارت کی جانب سے اس معاہدے پر شور مچانا اور تنقید کرنا حیران کن نہیں۔ ’’بھارت کا چیخیں مارنا کوئی مسئلہ نہیں ہے، اس کی پریشانی فطری ہے۔ ہم نے کبھی جارحانہ عزائم نہیں رکھے، ہم تو برصغیر میں بھی امن چاہتے ہیں، مگر اگر ہمارے خلاف کوئی جارحیت ہوگی تو دفاع ہمارا حق ہے۔‘‘
یاد رہے کہ گزشتہ دنوں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور وزیر اعظم شہباز شریف نے پاکستان اور سعودی عرب کے مابین اسٹریٹجک باہمی دفاعی معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ معاہدے کی رو سے اگر کسی ایک ملک پر بیرونی مسلح حملہ ہوتا ہے تو اسے دونوں ممالک پر حملہ تصور کیا جائے گا اور دونوں مشترکہ طور پر دفاع کریں گے۔
ماہرین کے مطابق یہ معاہدہ نہ صرف پاکستان اور سعودی عرب کے سکیورٹی تعلقات کو نئی جہت فراہم کرتا ہے بلکہ خطے میں طاقت کے توازن اور سفارتی منظرنامے پر بھی گہرے اثرات ڈال سکتا ہے، جس کی وجہ سے بھارت سمیت کئی ممالک اس پیش رفت پر باریک بینی سے نظر رکھے ہوئے ہیں۔