اسلام آباد: پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے اندر اس وقت غیر متوقع صورتحال پیدا ہوگئی ہے جب جیل میں قید پارٹی کے بانی چیئرمین عمران خان نے اچانک قومی اسمبلی اور سینیٹ میں نئے قائدِ حزبِ اختلاف کے تقرر کی ہدایت جاری کر دی۔
پارٹی کے اندرونی ذرائع کے مطابق عمران خان کی جانب سے اڈیالہ جیل سے جاری یہ ہدایت نہ صرف پارٹی قیادت بلکہ پارلیمانی ارکان کے لیے بھی حیرت کا باعث بنی ہے، کیونکہ بیشتر رہنما سمجھتے تھے کہ عدالتوں سے عمر ایوب خان اور شبلی فراز کی نااہلی کے مقدمات میں جلد ریلیف مل جائے گا۔
عمران خان کی ہدایت کے مطابق محمود خان اچکزئی کو قومی اسمبلی اور علامہ عباس ناصر کو سینیٹ میں قائدِ حزبِ اختلاف مقرر کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ پارٹی ذرائع کے مطابق اس اعلان نے اندرونی طور پر کئی سوالات کو جنم دیا ہے، خصوصاً اس وقت جب پی ٹی آئی کی اکثریت سمجھتی تھی کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے فیصلے کو عدالت میں چیلنج کرنا زیادہ موزوں راستہ ہے۔
یاد رہے کہ الیکشن کمیشن نے 9 مئی کے واقعات سے متعلق مقدمات میں سزا کے بعد عمر ایوب خان اور شبلی فراز کو ان کی نشستوں سے ڈی سیٹ کر دیا تھا۔ پارٹی کی قانونی ٹیم نے یہ فیصلہ عدالت میں چیلنج کر رکھا ہے اور پی ٹی آئی کے سینئر رہنماؤں کو امید تھی کہ عدالت سے جلد مثبت فیصلہ سامنے آئے گا۔
پارٹی کے اندرونی ذرائع کے مطابق چند ہفتے قبل پی ٹی آئی رہنماؤں کے ایک وفد نے اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات کر کے انہیں تجویز دی تھی کہ نئے قائدِ حزبِ اختلاف کے تقرر کو اس وقت تک مؤخر کیا جائے جب تک عدالت ای سی پی کے فیصلے پر اپنا حتمی حکم نہیں دیتی۔ اس ملاقات کے دوران عمران خان نے کوئی واضح جواب نہیں دیا، جس سے رہنماؤں کو یہ تاثر ملا کہ وہ اس مشورے سے متفق ہیں۔
تاہم کئی ہفتوں کی خاموشی کے بعد عمران خان نے اچانک اپنا فیصلہ سناتے ہوئے پارٹی کو فوری طور پر نئے تقرر کرنے کی ہدایت جاری کر دی، جس سے پارٹی کے اندر بے چینی پیدا ہوگئی۔
پارٹی کے کئی اراکینِ اسمبلی کا کہنا ہے کہ اگر عدالت نے ای سی پی کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا تو عمر ایوب خان اور شبلی فراز خود بخود اپنے عہدوں پر بحال ہو جائیں گے، اس لیے نئے تقرر کی اس وقت کوئی ضرورت نہیں تھی۔ ایک سینئر رہنما نے کہا، “ہمیں امید تھی کہ فیصلہ کسی بھی وقت ہمارے حق میں آسکتا ہے، تو پھر اندرونی اختلافات پیدا کرنے کی کیا ضرورت تھی؟”
پارٹی کے کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ عمران خان نے یہ فیصلہ اس لیے کیا تاکہ پارٹی کو عدالتی کارروائیوں کی غیر یقینی صورتحال میں جمود کا شکار ہونے سے بچایا جا سکے۔ بعض تجزیہ کاروں کے مطابق عمران خان یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ پی ٹی آئی اپنی پارلیمانی حکمتِ عملی کو عدالتی عمل سے مشروط نہیں کرے گی اور پارٹی اپنی سیاسی سرگرمیاں کسی بھی صورتحال میں جاری رکھے گی۔
ایک رہنما کے مطابق، “یہ تقرر دراصل سیاسی استحکام اور اتحاد کا پیغام ہے تاکہ پارٹی کے پارلیمانی کردار میں تسلسل برقرار رہے۔” تاہم پارٹی کے اندر کئی سینئر رہنما اس فیصلے کو “قبل از وقت” اور “غیر ضروری” قرار دے رہے ہیں، خصوصاً اس صورت میں جب عدالت سے جلد ریلیف کی امید ظاہر کی جا رہی ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق عمران خان کا یہ فیصلہ ایک جانب پارٹی کی خودمختاری اور فیصلہ سازی کے تسلسل کو ظاہر کرتا ہے، لیکن دوسری جانب یہ پی ٹی آئی کے اندر پائے جانے والے اختلافِ رائے اور حکمتِ عملی کے فقدان کو بھی نمایاں کر دیتا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ پارٹی کے پارلیمانی ونگ عمران خان کی اس ہدایت پر کس حد تک اور کتنی جلدی عمل کرتا ہے، کیونکہ ذرائع کے مطابق پارٹی کی قیادت نے واضح اشارہ دیا ہے کہ پارلیمانی پارٹی عمران خان کے فیصلے کے مطابق ہی آگے بڑھے گی، اگرچہ اندرونی اختلافات بدستور موجود ہیں۔