اسلام آباد: خیبرپختونخوا کے نئے وزیراعلیٰ کے طور پر عمران خان کی جانب سے سہیل آفریدی کی نامزدگی نے سیاسی و سرکاری حلقوں میں گہری تشویش پیدا کر دی ہے۔ وفاقی سطح پر اس فیصلے پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے، اور بعض اعلیٰ عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اس فیصلے پر عملدرآمد سے قبل ہی بڑی رکاوٹیں پیدا ہو سکتی ہیں۔
ایک اعلیٰ وفاقی عہدیدار نے بتایا کہ جن لوگوں کو لگتا ہے کہ سہیل آفریدی شاید وزیراعلیٰ نہ بن سکیں، وہ بالآخر درست ثابت ہو سکتے ہیں۔ اُن کے مطابق، “نامزدگی کی حیثیت ثانوی ہوتی ہے، اصل اہمیت وزیراعلیٰ کے انتخاب میں ڈالے گئے ووٹوں کی ہے۔” اس وقت تک وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کا استعفیٰ بھی گورنر کو موصول نہیں ہوا۔
عہدیدار کا کہنا تھا کہ ریاست کے مفاد سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہو سکتی، اور اگر کسی نے دانستہ طور پر ریاستی عمل کو کمزور کرنے کی کوشش کی تو ایسی کوشش کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔
ذرائع کے مطابق سہیل آفریدی پی ٹی آئی رہنما مراد سعید کے قریبی ساتھی ہیں، اور عمران خان نے انہیں اس لیے نامزد کیا ہے تاکہ وہ خیبرپختونخوا میں امن و امان کی بگڑتی صورتحال سے “اپنے انداز” میں نمٹ سکیں، نہ کہ وفاق یا فوج کی انسدادِ دہشت گردی پالیسی کے مطابق۔ تاہم یہ فیصلہ عسکری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ عمران خان کے تناؤ کو مزید بڑھانے کا اشارہ سمجھا جا رہا ہے۔
بعض وفاقی وزراء نے اس نامزدگی پر تحفظات ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ سہیل آفریدی کا وزیراعلیٰ بننا ممکن نہیں، اور عمران خان کا یہ اقدام پارٹی کو مزید مشکل میں ڈال سکتا ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق سہیل آفریدی کی نامزدگی ایک خطرناک سیاسی جوا ہے، جو خیبرپختونخوا حکومت کے استحکام کو متاثر کر سکتا ہے۔ ان خدشات کو مزید تقویت اس وقت ملی جب ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے پریس کانفرنس کے دوران خیبرپختونخوا میں بڑھتی دہشت گردی کے پیچھے “سیاسی و مجرمانہ گٹھ جوڑ” کی نشاندہی کی۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا، “اگر ہر مسئلہ مذاکرات سے حل ہو سکتا تو بدر اور احد کی جنگیں کیوں لڑی گئیں؟” اُن کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں اور اُن کے سہولت کاروں کو ایک منظم منصوبے کے تحت پناہ دی گئی، جبکہ صوبے میں گورننس اور عوامی بہبود کے نظام کو کمزور کیا گیا۔
انہوں نے افغان مہاجرین کی واپسی کے معاملے پر بھی سیاسی بیانیے کو قومی سلامتی کے لیے نقصان دہ قرار دیا، اور کہا کہ “غلط معلومات اور موقع پرستی کے ذریعے انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیوں کو کمزور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔”
سیاسی مبصرین کے مطابق، سہیل آفریدی کی نامزدگی اور فوج کی سخت پیغام رسانی سے ظاہر ہوتا ہے کہ خیبرپختونخوا میں سیاسی اور سیکورٹی تصادم شدت اختیار کر سکتا ہے۔ پہلے ہی صوبے میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے، اور عمران خان کا یہ فیصلہ اُن کی جماعت کے لیے ایک نیا بحران پیدا کر سکتا ہے۔