فیلڈ مارشل عاصم منیر نے پاک فوجی صلاحیتوں اور قومی عزم کا اعادہ کرتے ہوئے بھارت کو دوٹوک پیغام دیا کہ نیوکلیئر ماحول میں جنگ ناقابلِ قبول ہے اور کسی بھی دوبارہ جارحیت کی صورت میں پاکستان فیصلہ کن اور توقعات سے کہیں سخت جواب دے گا۔
آرمی چیف نے پاکستان ملٹری اکیڈمی (پیم اے) کاکول میں پاسنگ آؤٹ پریڈ سے خطاب میں کہا کہ آپریشن بنیانِ مرصوص کے دوران قوم نے افواج کے ساتھ فولادی یکجہتی دکھائی اور اسی اعتماد نے دہشت گردی کیخلاف کامیابیوں کو ممکن بنایا۔ انہوں نے بتایا کہ افواجِ پاکستان نے اس آپریشن میں پیشہ ورانہ انداز اپناتے ہوئے دہشت گرد عناصر کے خلاف موثر کاروائیاں کیں، جس سے عوام کا فوج پر اعتماد مزید مستحکم ہوا۔ آرمی چیف نے پاک فوج، بحریہ اور فضائیہ کے جوانوں، مرد و خواتین، بزرگوں اور بچوں کو اُن کی قربانیوں پر خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ وطن کے دفاع میں شہید ہونے والوں کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
فیلڈ مارشل نے بھارتی الزامات اور جارحانہ روّیے کی شدید تنقید کی۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت نے پاکستان کے خلاف بے بنیاد شواہد اور پروپیگینڈا چلائے، مگر پاکستانی قوم نے جو اتحاد دکھایا وہ اس انتقامی بیانیے کو ناکام بنا گیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان نے دشمن کے متعدد اہداف کو نشانہ بنایا — خطے کی جدید عسکری ٹیکنالوجی کے خلاف کارروائیوں کا حوالہ دیتے ہوئے آرمی چیف نے کہا کہ رافیل طیاروں کو مار گرایا گیا اور دشمن کی متعدد بیسز بشمول ایس-400 سسٹمز کو نشانہ بنایا گیا، جس سے پاکستان کی ملٹی ڈومین وارفیئر صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ ہوا۔ ان بیانات کو قومی عزم اور اللہ کے فضل کے ساتھ جوڑتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم نے من حیثِ القوم متحد ہو کر دشمن کا مقابلہ کیا اور اپنی سرحدوں کا کامیابی سے دفاع کیا۔
دفاعی حکمتِ عملی کے بارے میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کا دفاعی نظریہ کریڈیبل ڈیٹرنس اور دائمی تیاری پر مبنی ہے، جس میں روایتی اور جدید تمام صلاحیتیں شامل ہیں۔ آرمی چیف نے خبردار کیا کہ اگر دشمن نے دوبارہ جارحیت کی کوشش کی تو اس کے فوجی اور اقتصادی نقصانات بھارت کی توقعات سے کہیں زیادہ ہوں گے اور جنگی منظرنامے میں ہمارے ہتھیار دشمن کے لیے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوں گے۔ انہوں نے زور دیا کہ دشمن کا جغرافیائی وسعت پر مبنی حفاظتی تصور "من گھڑت” ہے اور پاکستانی ردِعمل اس تصور کو ختم کر دے گا۔
خطے اور عالمی تعلقات کے حوالے سے عاصم منیر نے کہا کہ پاکستان نے نیٹ ریجنل اسٹیبلائزر کے طور پر کردار ادا کیا ہے اور عالمی طاقتوں بالخصوص مسلم ممالک کے ساتھ تعلقات مضبوط ہوئے ہیں۔ انہوں نے سعودی عرب کے ساتھ حالیہ دفاعی معاہدے کو حرمین الشریفین کے دفاع اور خطے میں امن و استحکام کے لیے اہم قرار دیا اور کہا کہ یہ معاہدہ پاکستانی عوام اور افواج کے لیے ایک اعزازی امر ہے کہ وہ حرمین کی حفاظت میں خدمات پیش کر سکیں۔ اسی سلسلے میں انہوں نے چین کے ساتھ تاریخی اور اسٹریٹجک شراکت داری پر فخر کا اظہار کیا اور امریکا کے ساتھ تعلقات میں دوبارہ متحرک پیش رفت کو خوش آئند قرار دیا۔ فیلڈ مارشل نے بین الاقوامی سطح پر موجود مثبت رجحانات اور قائدین، بشمول وہ رہنماؤں کے اقدامات جو تنازعات میں امن لانے کی کوششیں کر رہے ہیں، کی تعریف بھی کی۔
پاکستان کے طویل المدتی سیاسی موقف پر بات کرتے ہوئے آرمی چیف نے مسئلۂ کشمیر پر قوم کے اصولی موقف کو دہراتے ہوئے کہا کہ پاکستان کشمیریوں کی حقِ خود ارادیت کی جدوجہد کی سیاسی، اخلاقی اور سفارتی حمایت جاری رکھے گا۔ انہوں نے غزہ میں امن کے قیام کے لیے پاکستان کی کوششوں اور ملک کی بین الاقوامی حیثیت میں اضافے پر بھی روشنی ڈالی اور کہا کہ پاکستان خطے اور اس سے باہر امن کے قیام کے لیے کلیدی کردار ادا کرتا رہا ہے، جس کی مثال اقوامِ متحدہ کے امن مشنز میں ہمارے شراکت داری کی شکل میں نظر آتی ہے۔
افغانستان اور پراکسی خطرات کے بارے میں انہوں نے واضح فرمایا کہ طالبان حکومت کو چاہیے کہ وہ ان گروپوں کو کنٹرول کرے جو افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔ آرمی چیف نے کہا کہ دشمن فتنۂ الہند اور فتنۂ الخوارج جیسی نیرؤں کو "ہائیَرڈ گنز” کے طور پر استعمال کر رہا ہے، اور ایسے عناصر کی سرپرستی علاقائی امن کے لیے خطرہ ہے۔ انہوں نے افغان عوام سے اپیل کی کہ وہ دائمی تشدد کے بجائے باہمی سلامتی اور تعاون کا راستہ اختیار کریں۔
آرمی چیف نے عوام اور افواج کے درمیان پیدا کی جانے والی دراڑوں کی مذمت کی اور کہا کہ دشمن کی کوشش ہے کہ وہ عوام اور مسلح افواج کے درمیان فاصلے پیدا کرے، مگر شہداء کی قربانیوں کی بدولت قوم متحد ہے اور آزادی کی زندگی گزار رہی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم کسی بھی چھوٹی سی اشتعال انگیزی کا بھی فیصلہ کن جواب دینے کے لیے پوری طرح تیار ہیں اور آنے والی کشیدگی کی ذمے داری پورے خطے اور اس سے باہر کے لیے تباہ کن نتائج کا باعث بن سکتی ہے۔
152 ویں لانگ کورس، 37 ویں ٹیکنیکل گریجویٹ کورس، 71 ویں اینٹی گریٹڈ کورس اور 26 ویں لیڈی کیڈٹ کورس کے کیڈٹس کی شاندار تقریب منعقد ہوئی، جس میں 40 دوست ممالک کے فوجی بھی شامل تھے جن میں عراق، مالدیپ، مالی، نیپال، فلسطین، سری لنکا، یمن، نائیجیریا، قطر اور بنگلہ دیش شامل تھے۔ فیلڈ مارشل کی آمد پر حاضرین نے کھڑے ہو کر پرتپاک استقبال کیا، بعد ازاں انہوں نے پریڈ کا معائنہ کیا اور بہترین کارکردگی دکھانے والے کیڈٹس کو اعزازی شمشیر اور شیلڈز سے نوازا۔

