وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک اہم بیان میں کہا ہے کہ افغانستان اب بھارت کی پراکسی بن چکا ہے اور پاکستان میں جاری دہشت گردی کی جنگ بھارت، افغانستان اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے مل کر مسلط کی ہوئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان گزشتہ کئی برسوں سے قربانیاں دیتا آ رہا ہے، لیکن اب صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ کابل کے حکمران آج بھارت کی گود میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ چند برس قبل تک یہی لوگ پاکستان کی پناہ میں تھے، ہماری زمین پر چھپتے پھرتے تھے اور ہماری سرزمین نے انہیں تحفظ فراہم کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ افغان عوام کی بھلائی کے لیے اقدامات کیے، لاکھوں مہاجرین کو پناہ دی، ان کے لیے وسائل مہیا کیے اور عالمی دباؤ کے باوجود انسانی ہمدردی کا مظاہرہ کیا، لیکن بدلے میں ہمیں صرف الزام تراشی اور سرحد پار دہشت گردی ملی۔
وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ اب پاکستان ماضی کی طرح کابل کے ساتھ تعلقات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ “ہم نے پچاس برس افغانوں کو مہمان کے طور پر برداشت کیا، لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ وہ اپنے وطن واپس جائیں۔ کابل میں ان کی اپنی حکومت ہے، اسلامی انقلاب کو پانچ سال ہو چکے ہیں، اب انہیں اپنے ملک میں رہ کر اپنے مستقبل کے فیصلے خود کرنے چاہئیں۔”
انہوں نے کہا کہ افغانستان کو پاکستان کے ساتھ ایک ذمہ دار ہمسایے کی طرح رہنا ہوگا۔ “ہماری زمین اور ہمارے وسائل 25 کروڑ پاکستانیوں کی ملکیت ہیں۔ اب زبردستی کی مہمان نوازی ختم ہونے کا وقت ہے۔ خوددار قومیں بیگانہ زمین پر نہیں پلتیں اور نہ ہی دوسروں کے وسائل پر زندہ رہتی ہیں۔”
خواجہ آصف نے واضح کیا کہ اب صرف احتجاجی مراسلے اور امن کی اپیلیں نہیں ہوں گی۔ “ہم کابل میں وفود نہیں بھیجیں گے۔ اب جو بھی دہشت گردی کا منبع بنے گا، اسے اس کی بھاری قیمت ادا کرنا ہوگی۔ پاکستان اپنی سرزمین پر کسی بھی قسم کی دہشت گردی برداشت نہیں کرے گا۔”
انہوں نے بتایا کہ 2021 میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد پاکستان نے کئی سطحوں پر کابل حکومت سے روابط بڑھانے اور امن کے لیے کوششیں کیں۔ وزیر خارجہ نے چار بار کابل کے دورے کیے، وزیر دفاع اور آئی ایس آئی کے سربراہان نے دو دو مرتبہ کابل جا کر بات چیت کی، نمائندہ خصوصی اور سیکرٹری نے پانچ پانچ مرتبہ دورے کیے جبکہ نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر ایک بار کابل گئے۔ اس کے علاوہ جوائنٹ کوآرڈینیشن کمیٹی کے آٹھ اجلاس منعقد ہوئے، لیکن ان سب کوششوں کے باوجود مثبت ردعمل نہیں ملا۔
وزیر دفاع نے مزید بتایا کہ اب تک 225 بارڈر فلیگ میٹنگز ہو چکی ہیں، 836 احتجاجی مراسلے بھیجے جا چکے ہیں اور 13 مرتبہ باضابطہ ڈیمارش کیا گیا، مگر اس سب کے باوجود افغانستان کی جانب سے دہشت گردوں کے خلاف کوئی مؤثر کارروائی نہیں کی گئی۔
خواجہ آصف کے مطابق 2021 سے اب تک پاکستان میں دہشت گردی کے 10 ہزار 347 واقعات ہوئے جن میں 3844 پاکستانی شہری، فوجی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار شہید ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ ان پانچ برسوں میں پاکستان نے بے پناہ قربانیاں دیں، امن کی بحالی کے لیے ہر ممکن کوشش کی، مگر کابل سے مثبت جواب نہیں آیا۔
وزیر دفاع نے زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان اپنے دفاع کے لیے ہر قدم اٹھائے گا، چاہے وہ سفارتی ہو یا عسکری۔ “اب یہ فیصلہ افغانستان کے حکمرانوں کو کرنا ہے کہ وہ بھارت کے مفاد میں چلنا چاہتے ہیں یا ایک پرامن ہمسائے کے طور پر پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانا چاہتے ہیں۔”