امریکا بھر میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف تاریخ ساز مظاہرے کیے گئے جن میں مجموعی طور پر 70 لاکھ سے زائد افراد نے شرکت کی۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق ’’نو کنگ‘‘ (No King) کے عنوان سے یہ احتجاجی مظاہرے امریکا کے تقریباً 2700 شہروں میں ایک ساتھ منعقد ہوئے۔ صرف شکاگو میں ہی ڈھائی لاکھ سے زائد افراد نے سڑکوں پر نکل کر صدر ٹرمپ کی پالیسیوں کے خلاف بھرپور احتجاج کیا۔
مظاہرین نے تارکین وطن کی بے دخلی کے لیے کیے جانے والے چھاپوں اور مختلف ریاستوں میں فوج کی تعیناتی کے فیصلوں پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا۔ شرکاء نے پلے کارڈز اور بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر ’’ٹرمپ آمریت نامنظور‘‘، ’’جمہوریت بچاؤ‘‘ اور ’’ہم بادشاہت نہیں مانتے‘‘ جیسے نعرے درج تھے۔
امریکی میڈیا کے مطابق ان مظاہروں کی بنیادی وجہ وہ چھاپے اور فوجی اقدامات ہیں جو صدر ٹرمپ نے ڈیموکریٹک ریاستوں میں شروع کر رکھے ہیں۔ عوامی سطح پر الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ ٹرمپ امریکا کو آمریت اور فوجی جبر کی جانب دھکیل رہے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ احتجاج کا دائرہ مزید وسیع ہونے کا امکان ہے کیونکہ مختلف شہروں میں مزدور تنظیمیں، انسانی حقوق کے کارکنان اور طلبہ بھی اس تحریک میں شامل ہو رہے ہیں۔
دوسری جانب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ وہ خود کو بادشاہ نہیں سمجھتے اور صرف ملکی قانون پر عملدرآمد یقینی بنا رہے ہیں۔
ری پبلکن رہنماؤں نے مظاہرین کے الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے ان احتجاجات کو ’’امریکا مخالف‘‘ اور ’’سیاسی مقاصد‘‘ کے تحت منظم کیا گیا قرار دیا ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق اس وسیع عوامی ردعمل نے امریکی سیاست میں ایک نیا موڑ پیدا کر دیا ہے اور آنے والے دنوں میں ٹرمپ انتظامیہ کے لیے عوامی دباؤ مزید بڑھنے کا امکان ہے۔