وزیراعظم کی زیر صدارت موسمیاتی تبدیلی کے مضر اثرات اور اس سے نمٹنے کے لیے حکومتی حکمت عملی پر ایک اہم جائزہ اجلاس منعقد ہوا۔
اجلاس میں وزارت موسمیاتی تبدیلی کی جانب سے قلیل، وسط اور طویل المدتی منصوبوں پر مفصل بریفنگ دی گئی، جس میں عالمی سطح پر مون سون 2025 سے متعلق متوقع اشاریوں اور ممکنہ موسمی خطرات کا تکنیکی تجزیہ بھی شامل تھا۔ حکام نے پیش گوئی کی کہ عالمی درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ، غیر معمولی بارشوں اور شدید موسمی پیٹرنز کے امکانات بڑھا رہا ہے، جس کی وجہ سے پیشگی تیاری ناگزیر ہو چکی ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے وزارت موسمیاتی تبدیلی کے قلیل المدتی منصوبے کی منظوری دیتے ہوئے متعلقہ اداروں کو ہدایت کی کہ اس منصوبے پر فوری طور پر عملدرآمد شروع کیا جائے اور کسی بھی تاخیر سے گریز کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ وزارت موسمیاتی تبدیلی، وزارت منصوبہ بندی اور نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی صوبائی حکومتوں کے ساتھ قریبی رابطے میں رہیں اور ایک جامع، مشترکہ اور عملی لائحہ عمل تشکیل دیں تاکہ مون سون کے دوران نقصانات کو کم سے کم کیا جا سکے۔
اس موقع پر وزیراعظم نے پانی کے بہتر اور مؤثر انتظام کے لیے قومی سطح پر حکمت عملی مرتب کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے نیشنل واٹر کونسل کے اجلاس کی تیاری کی ہدایت بھی کی۔ انہوں نے کہا کہ ملکی آبی نظام کو بہتر بنانا موسمیاتی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے بنیادی اہمیت رکھتا ہے، اس لیے اسے ترجیحی بنیادوں پر آگے بڑھایا جائے۔
وزیراعظم نے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کو ہر تیسرے سال موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے جی ڈی پی کا بڑا حصہ خرچ کرنا پڑتا ہے، جو قومی معیشت پر بوجھ بنتا ہے۔ انہوں نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ پاکستان کا عالمی سطح پر کاربن اخراج میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے، لیکن موسمیاتی تبدیلی کے شدید اثرات سے پاکستان سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے، جو عالمی ناانصافی کی واضح مثال ہے۔
اجلاس میں وفاقی وزراء احسن اقبال، احد خان چیمہ، محمد اورنگزیب، ڈاکٹر مصدق ملک، عطاء اللہ تارڑ سمیت اعلیٰ حکام نے شرکت کی، جبکہ متعلقہ اداروں نے اپنی سفارشات اور پیشگی اقدامات سے متعلق اہم نکات پیش کیے۔

