یہ خبر آپ کی ہدایات کے مطابق بغیر کسی اختصار, مکمل تفصیل اور باقاعدہ پیراگرافوں میں ترتیب دے دی گئی ہے۔ آخر میں اردو + انگلش ہیش ٹیگز بھی شامل ہیں۔
اسلام آباد: پاکستان تحریکِ انصاف کی قیادت کو صاف اور دوٹوک پیغام دے دیا گیا ہے کہ عمران خان یا پارٹی کے سوشل میڈیا سے پاک فوج اور اس کی اعلیٰ قیادت کے خلاف کسی بھی قسم کی توہین آمیز، تضحیک آمیز یا اشتعال انگیز مہم ہرگز برداشت نہیں کی جائے گی۔ پارٹی ذرائع کے مطابق اس بار پیغام کا لہجہ پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ سخت ہے اور اس میں واضح کر دیا گیا ہے کہ معاملہ ’’اب بہت ہو چکا‘‘ کی حد تک پہنچ گیا ہے اور پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت اس صورتحال کی سنگینی کو بھرپور انداز میں سمجھ رہی ہے۔
پارٹی کے ایک ذریعے نے بتایا کہ اگرچہ گزشتہ تین برسوں سے فوجی قیادت پر براہِ راست تنقید کا سلسلہ جاری رہا، لیکن اب ادارے یا اس کی اعلیٰ قیادت کے خلاف بولنے یا سوشل میڈیا پر کوئی مہم چلانے کی مزید کوئی گنجائش نہیں چھوڑی گئی۔ اس انتباہ میں پہلی بار خاصی سختی محسوس کی جا رہی ہے، جس کی ایک وجہ عمران خان کی بہن عظمیٰ خانم کی حالیہ ملاقات بھی بنی جس میں انہوں نے جیل میں سابق وزیراعظم سے ملاقات کے بعد میڈیا میں تنقیدی بیانات دیے۔ ان بیانات نے پہلے سے موجود کشیدگی میں اضافہ کیا اور اُن حکومتی و پارلیمانی شخصیات کو بھی مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑا جنہوں نے یہ ملاقات ممکن بنائی تھی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے پی ٹی آئی کے اندر بھی تشویش پائی جاتی ہے۔ کئی سینئر رہنماؤں نے اندرونی گفتگو میں اس بات پر زور دیا ہے کہ عمران خان کے اہلخانہ کو اپنے بیانات میں نہایت احتیاط برتنی چاہیے اور ایسے سخت یا متنازع بیانات کو عوام میں دہرانے سے گریز کرنا چاہیے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب پارٹی سیاسی مکالمے، رابطوں اور ریلیف کی تلاش میں ہے۔ پارٹی کے اندر یہ احساس بھی پایا جاتا ہے کہ غیر ضروری سخت بیانیہ، خصوصاً سوشل میڈیا پر، مذاکراتی ماحول کو مزید مشکل بنا دیتا ہے۔
مزید بتایا جاتا ہے کہ بعض رہنماؤں کو اداروں کی طرف سے بالکل واضح طور پر آگاہ کیا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو کون چلاتا ہے، مواد کس طریقے سے تیار ہوتا ہے، کیسے منظوری دی جاتی ہے اور کس طریقہ کار کے تحت اسے عمران خان کے آفیشل اکاؤنٹس سے شیئر کیا جاتا ہے۔ اس وضاحت کا مقصد پارٹی کو یہ بتانا ہے کہ اس پورے نظام پر سخت نظر رکھی جا رہی ہے اور فوج کے خلاف بیانات یا مہم کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔
پارٹی کے ایک رکنِ قومی اسمبلی کا کہنا تھا کہ اگر عمران خان جذبات میں کوئی سخت بات بھی کر دیں، تو ان کے قریب موجود افراد، بالخصوص اُن کی بہنیں، ان بیانات کو عوام میں دہرانے سے گریز کریں۔ ان کے مطابق اس طرح کے بیانات پارٹی کی ساکھ اور مفاہمت کی کوششوں کیلئے نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں اور ایسا تاثر جاتا ہے کہ پی ٹی آئی مذاکرات یا سیاسی حل میں سنجیدہ نہیں۔
ذرائع نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ پی ٹی آئی کے اندر اب یہ رائے مضبوط ہو چکی ہے کہ سیاسی حل کا واحد راستہ بات چیت ہے۔ متعدد ارکان سمجھتے ہیں کہ مستقبل کیلئے روابط برقرار رکھنا، کشیدگی کم کرنا اور اداروں کے ساتھ ٹکراؤ کے بجائے مکالمہ ہی وہ راستہ ہے جو پارٹی کیلئے ریلیف اور بحالی کی فضا پیدا کر سکتا ہے۔ تاہم وہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ عمران خان کے سخت بیانات اور پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا پر جاری جارحانہ بیانیہ کسی بھی مثبت پیش رفت کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ جیسے 9 مئی کے واقعات کے بعد ریاستی اداروں نے کسی قسم کی نرمی نہیں دکھائی تھی، اسی طرح اب فوج یا اس کی قیادت پر تنقید کے معاملے میں بھی کوئی گنجائش باقی نہیں رہے گی۔ واضح کر دیا گیا ہے کہ مستقبل میں اس نوعیت کی کسی بھی مہم کے نتائج سخت ہوسکتے ہیں اور پارٹی قیادت کو اس پیغام کی اہمیت کو سمجھنا ہوگا۔

