اسلام آباد میں وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے کہا ہے کہ آج فوج نے عملی طور پر ثابت کر دیا ہے کہ سب کو احتساب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آج کی سزا کے بعد چاہے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار ہوں یا بانی پی ٹی آئی، سب کو سزا ملے گی اور کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے۔
جیو نیوز سے گفتگو میں طلال چوہدری کا کہنا تھا کہ اس فیصلے کے بعد عدلیہ کو بھی چاہیے کہ انصاف کے تقاضے تیزی سے پورے کرے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ 9 مئی کے فیصلے کب ہوں گے، کیا قیامت والے دن ہوں گے؟ ملک قانون کی حکمرانی چاہتا ہے، اس لیے تاخیر کے بغیر فیصلے ضروری ہیں۔
طلال چوہدری سے جب یہ سوال پوچھا گیا کہ کیا جنرل باجوہ بھی اس گروپ کا حصہ تھے اور کیا انہیں بھی سزا ملنی چاہیے؟ تو اس پر انہوں نے کہا کہ اس بات کا فیصلہ خود ادارے نے ایک مضبوط اور واضح احتساب کرکے کر دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ادارہ جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ کوئی ہاتھ نہیں ڈال سکتا، اس نے آج ثابت کر دیا کہ کوئی بھی غیر آئینی یا غیرقانونی کام کرے گا تو اسے اس کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ ادارے نے ایک مثال قائم کی ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ باقی کب ایسا کریں گے۔
طلال چوہدری نے مزید کہا کہ جو سیاسی جماعت اس سارے عمل کا حصہ رہی ہے، اسے بھی اپنی خود احتسابی کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ فیصلے کی پریس ریلیز کا آخری پیرا انتہائی معنی خیز ہے، اور اسے سنجیدگی سے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ادارے نے واضح کر دیا ہے کہ انہیں کسی اور کے ہاتھوں احتساب کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ کون سی سیاسی جماعت تھی جو اس سارے عمل سے فائدہ اٹھاتی رہی؟ جب ایک ادارہ اتنے بڑے افسر کو سزا دے سکتا ہے تو کیا وہ چاہے گا کہ باقی کسی کو معافی ملے؟ سب کے ساتھ ایک جیسا سلوک ہونا چاہیے کیونکہ اس گٹھ جوڑ اور غیر آئینی اقدامات کا نقصان پاکستان نے اٹھایا ہے۔
ان سے یہ بھی پوچھا گیا کہ کیا بانی پی ٹی آئی کا ٹرائل ملٹری کورٹ میں ہوتا دکھائی دے رہا ہے؟ جس پر طلال چوہدری نے جواب دیا کہ سب جانتے ہیں کہ بانی پی ٹی آئی اور فیض حمید کے درمیان گٹھ جوڑ تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی کی سیاست ہی فیض حمید کے گرد گھومتی تھی، اگر فیض حمید عہدے پر نہ ہوتے تو بانی پی ٹی آئی کی حکومت کبھی نہ بنتی۔ انہوں نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی جب اپوزیشن میں تھے تب بھی دونوں کے درمیان گٹھ جوڑ موجود تھا۔ اب جب اس پورے عمل کے پس پردہ مرکزی کردار پکڑا گیا ہے تو جس نے اس گٹھ جوڑ سے فائدہ لینا تھا، اسے بھی کٹہرے میں آنا چاہیے۔ یہ ایک مشترکہ کلب تھا جس کے تمام اراکین سمجھتے تھے کہ وہ ایک دوسرے کے مفادات کی حفاظت کریں گے۔

