آرٹیفیشل انٹیلجنس اور جدید ٹیکنالوجی کے تیز رفتار فروغ کے باوجود خلیجی ممالک میں آئندہ برسوں کے دوران لاکھوں محنت کشوں کی ضرورت برقرار رہے گی۔ امریکی اور برطانوی اداروں کی جانب سے جاری کی گئی ایک مشترکہ تحقیقی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ خلیجی خطے میں 2030 تک 15 لاکھ سے زائد اضافی محنت کش درکار ہوں گے، جو خطے کی معاشی ترقی، بڑے ترقیاتی منصوبوں اور آبادی میں اضافے کا واضح ثبوت ہے۔
تحقیقی رپورٹ کے مطابق متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک میں اگرچہ آرٹیفیشل انٹیلجنس، آٹومیشن اور جدید ٹیکنالوجی کو تیزی سے اپنایا جا رہا ہے، تاہم اس کے باوجود انسانی محنت کی ضرورت ختم نہیں ہو رہی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تعمیرات، انفراسٹرکچر، صحت، تعلیم، سیاحت، لاجسٹکس، توانائی اور سروسز کے شعبوں میں آئندہ برسوں میں افرادی قوت کی مانگ میں نمایاں اضافہ ہوگا۔
رپورٹ میں خاص طور پر متحدہ عرب امارات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ وہاں آرٹیفیشل انٹیلجنس کے بڑھتے ہوئے استعمال کے باوجود لاکھوں محنت کش درکار ہوں گے۔ اندازوں کے مطابق یو اے ای میں مجموعی افرادی قوت میں 12 فیصد اضافے کا امکان ہے، جو نئی سرمایہ کاری، میگا پراجیکٹس اور عالمی کاروباری سرگرمیوں کے پھیلاؤ کی وجہ سے ہوگا۔
اسی طرح سعودی عرب کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ویژن 2030 کے تحت جاری ترقیاتی منصوبوں، نیوم سٹی، انفراسٹرکچر کی توسیع، سیاحت اور صنعتی شعبے کی ترقی کے باعث افرادی قوت میں 11 فیصد اضافے کی توقع ہے۔ سعودی عرب میں بھی ٹیکنالوجی کے فروغ کے ساتھ ساتھ ہنرمند اور غیر ہنرمند محنت کشوں کی طلب برقرار رہے گی۔
ماہرین کے مطابق یہ صورتحال پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور دیگر ایشیائی ممالک کے محنت کشوں کے لیے روزگار کے نئے مواقع پیدا کر سکتی ہے، بشرطیکہ ان ممالک کی افرادی قوت جدید مہارتوں، تربیت اور ٹیکنیکل تعلیم سے آراستہ ہو۔ رپورٹ میں اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ خلیجی ممالک مستقبل میں زیادہ ہنرمند اور تربیت یافتہ ورکرز کو ترجیح دیں گے، جو جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ کام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔
تحقیقی رپورٹ کے مطابق اگرچہ آرٹیفیشل انٹیلجنس بعض شعبوں میں انسانی محنت کی جگہ لے رہی ہے، تاہم مجموعی طور پر خلیجی معیشتوں کی توسیع اور ترقی انسانی وسائل کی اہمیت کو مزید بڑھا رہی ہے، اور آئندہ دہائی میں لاکھوں نئی ملازمتیں پیدا ہونے کا امکان ہے۔

