تحریکِ تحفظِ آئینِ پاکستان کے رہنما مصطفی نواز کھوکھر نے اپوزیشن کی جانب سے حکومت سے مذاکرات کے لیے کسی بھی قسم کی شرط رکھنے سے متعلق خبروں کو مسترد کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اپوزیشن نے مذاکرات کے آغاز کے لیے کوئی پیشگی شرط عائد نہیں کی اور اس حوالے سے پھیلائی جانے والی اطلاعات درست نہیں ہیں۔
مصطفی نواز کھوکھر نے واضح کیا کہ اپوزیشن حکومت سے پارلیمان کی بالادستی، آئین کی حکمرانی اور قانون کے احترام جیسے بنیادی نکات پر بات چیت کرنا چاہتی ہے۔ ان کے مطابق اپوزیشن کا مقصد کسی ایک جماعت یا فرد کے مفاد کا تحفظ نہیں بلکہ جمہوری نظام کو مضبوط بنانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش پر اتحادی جماعتوں سے مشاورت کی گئی ہے اور موجودہ حالات میں بات چیت کے دروازے بند نہیں ہونے چاہئیں۔
مصطفی نواز کھوکھر کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت ملک شدید سیاسی اور معاشی بحران کا شکار ہے، ایسے حالات میں جمہوری رویے کا تقاضا یہی ہے کہ فریقین ایک دوسرے سے بات کریں اور مسائل کا حل مذاکرات کے ذریعے نکالیں۔ ان کے مطابق جمہوریت میں اختلافِ رائے کے باوجود مکالمہ ہی واحد راستہ ہوتا ہے۔
ادھر پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما اسد قیصر نے بھی اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عام طور پر یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ اپوزیشن بات چیت کے لیے تیار نہیں، لیکن اپوزیشن نے دل بڑا کرکے سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اسد قیصر کا کہنا تھا کہ اپوزیشن نے بغیر کسی شرط کے آئین کی بالادستی، قانون کی حکمرانی اور عوام کے ووٹ کے احترام کا ایجنڈا حکومت کے سامنے رکھا ہے۔
اسد قیصر نے مزید کہا کہ اب سب سے پہلے حکومت کی سنجیدگی کو پرکھا جائے گا اور دیکھا جائے گا کہ حکومت اس پیشکش پر کیا ردِ عمل دیتی ہے۔ ان کے مطابق اگر حکومت خلوصِ نیت سے آگے بڑھے تو سیاسی کشیدگی میں کمی آ سکتی ہے۔
دوسری جانب جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات پر آمادگی کو ایک مثبت اور خوش آئند قدم قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سیاسی مسائل کا حل تصادم کے بجائے مکالمے میں ہی مضمر ہے اور مذاکرات سے ملک میں سیاسی استحکام کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔

