اسرائیلی پولیس اور یہودی آباد کاروں کی جانب سے کرسمس کے موقع پر بھی مسیحی برادری کے خلاف سخت کارروائیاں کی گئیں، جس کے باعث مذہبی آزادی اور انسانی حقوق سے متعلق سنگین سوالات جنم لے رہے ہیں۔ مختلف شہروں میں کرسمس کی تقریبات کے دوران تشدد، گرفتاریوں اور پابندیوں کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔
اسرائیلی پولیس نے حیفا اور مقبوضہ مغربی کنارے میں واقع شہر بیت لحم میں کرسمس کی خوشیاں منانے والے مسیحیوں پر تشدد کیا اور متعدد افراد کو گرفتار کر لیا۔ عینی شاہدین کے مطابق پولیس نے اچانک کارروائیاں کیں جس سے خوف و ہراس پھیل گیا اور تقریبات متاثر ہوئیں۔
سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اسرائیلی پولیس اہلکار سانتا کلاز کے لباس میں ملبوس شہریوں کو بھی زبردستی گرفتار کر رہے ہیں، جس پر دنیا بھر میں شدید ردعمل سامنے آ رہا ہے۔ ویڈیوز میں پولیس کی سختی اور طاقت کے بے جا استعمال کے مناظر واضح دکھائی دیتے ہیں۔
رپورٹس کے مطابق مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیلی آباد کاروں نے کرسمس ٹری کو آگ لگا دی، جسے مذہبی نفرت اور اشتعال انگیزی کی واضح مثال قرار دیا جا رہا ہے۔ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ اس طرح کے واقعات مسیحی برادری کو ڈرانے اور ان کی مذہبی شناخت کو نشانہ بنانے کی کوشش ہیں۔
برطانوی اور بین الاقوامی میڈیا کے مطابق اسرائیلی پولیس نے حیفا میں ایک موسیقی ہال میں اچانک داخل ہو کر کرسمس کی تقریب رکوا دی اور وہاں موجود موسیقی کا سامان بھی ضبط کر لیا۔ منتظمین کے مطابق یہ تقریب پرامن تھی اور کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی جا رہی تھی، تاہم اس کے باوجود کارروائی کی گئی۔
دوسری جانب، مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیلی پابندیوں کے باوجود فلسطینی مسیحی برادری نے کرسمس کی تقریبات منائیں۔ رپورٹس کے مطابق بیت لحم میں 25 دسمبر کی تقریبات غزہ پر جنگ کے آغاز کے بعد پہلی مرتبہ منعقد ہوئیں۔ ان تقریبات کو فلسطینی مسیحیوں نے ثابت قدمی، ایمان اور امن کی علامت قرار دیا۔
مسیحی رہنماؤں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اسرائیلی اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ مذہبی آزادی کا احترام کیا جائے اور مقدس تہواروں کے دوران شہریوں کے خلاف طاقت کے استعمال سے گریز کیا جائے۔

