اسلام آباد: وزیراعظم نے پراپرٹی فائلز، بشمول پلاٹس، ولاز اور اپارٹمنٹس کی خرید و فروخت کی قانونی حیثیت، ریونیو اثرات اور ریگولیٹری فریم ورک کا جامع جائزہ لینے کے لیے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔
یہ اقدام بڑھتے ہوئے فراڈ، ٹیکس چوری اور سرمایہ کاروں کے حقوق کے تحفظ سے متعلق خدشات کے پیشِ نظر کیا گیا ہے۔ سرکاری نوٹیفکیشن کے مطابق، کمیٹی کے سربراہ وزیرِ قانون و انصاف ہوں گے جبکہ اس میں چیئرمین ایف بی آر، تمام صوبوں کے سینئر ممبرز بورڈ آف ریونیو (ایس ایم بی آرز)، نیب کا 21 گریڈ یا اس سے اوپر کا ایک سینئر نمائندہ، چیف کمشنر اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری اور ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیولپرز (آباد) کا ایک نمائندہ بھی شامل ہوں گے۔
کمیٹی کو رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں جاری جائیداد کی فائلز کی خرید و فروخت کے قانونی اسٹیٹس اور عملی طریقہ کار کا جائزہ لینے کی ذمہ داری دی گئی ہے۔ اس کے ساتھ یہ کمیٹی وفاقی اور صوبائی سطح پر حکومت کی آمدنی (محصولات) پر اس کاروبار کے اثرات کا بھی تجزیہ کرے گی۔
کمیٹی کا ایک اہم مینڈیٹ فائل ہولڈرز اور جائیداد کے خریداروں کے حقوق کا تحفظ بھی ہے، خاص طور پر ایسے معاملات میں جہاں ڈویلپرز نے فراڈ کیا ہو، جن میں جعلی یا دوہری فائلز کا اجراء اور ایک ہی جائیداد کی متعدد بار فروخت شامل ہیں۔
ٹی او آرز (Terms of Reference) کے تحت کمیٹی متعلقہ قوانین میں ترامیم کی تجاویز بھی پیش کرے گی تاکہ پراپرٹی فائلز کی خرید و فروخت کو ایک باضابطہ قانونی فریم ورک کے تحت لایا جا سکے۔ اس کا مقصد ٹیکس کی درست وصولی کو یقینی بنانا اور رئیل اسٹیٹ کے خریداروں و سرمایہ کاروں کو قانونی تحفظ فراہم کرنا ہے۔ کمیٹی کو یہ اختیار بھی دیا گیا ہے کہ وہ اپنے مینڈیٹ سے متعلق دیگر امور کا بھی جائزہ لے سکتی ہے۔
کمیٹی کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ ایک ماہ کے اندر اپنی رپورٹ پیش کرے، جبکہ ایف بی آر کمیٹی کی کارروائی کے لیے سیکریٹریل سپورٹ فراہم کرے گا۔
یہ کمیٹی اسلام آباد اور راولپنڈی میں سامنے آنے والے ایک بڑے ہاؤسنگ اسکینڈل کے بعد تشکیل دی گئی ہے، جس میں نجی ہاؤسنگ اسکیموں اور سوسائٹیوں پر الزام تھا کہ انہوں نے بغیر کسی زمین کے 90 ہزار سے زائد پلاٹس فروخت کیے اور جعلی لینڈ بینک کی تشہیر و ممبرشپ جاری کر کے سرکاری ملازمین اور ریٹائرڈ افراد سمیت خریداروں سے سیکڑوں ارب روپے وصول کیے۔

