نئی دہلی :بھارتی ڈپٹی آرمی چیف لیفٹیننٹ جنرل راہول سنگھ نے پاکستان سے حالیہ محاذ آرائی میں شکست کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتی فوج کو پاکستانی افواج کی عسکری اور تکنیکی برتری نے حیرت میں ڈال دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت کو ایک نہیں بلکہ تین دشمنوں کا سامنا تھا، اور ہمیں بروقت جنگی سامان تک رسائی حاصل نہیں ہو سکی۔
لیفٹیننٹ جنرل راہول سنگھ نے ایک اعلیٰ سطحی ڈی جی ایم او اجلاس کے دوران اعتراف کیا کہ پاکستانی فوج کو بھارتی افواج کی نقل و حرکت کا مکمل ادراک تھا۔ ان کے مطابق پاکستان کی C4ISR صلاحیتوں (کمانڈ، کنٹرول، کمیونیکیشن، کمپیوٹر، انٹیلیجنس، سرویلنس اور ریکانیسنس) نے بھارتی فوج کی کارروائیوں کو ناکام بنا دیا۔انہوں نے مزید کہا کہ پاک فضائیہ کی الیکٹرانک وارفیئر صلاحیتیں آپریشن سندور کے دوران بے مثال ثابت ہوئیں۔ بھارتی فضائی دفاعی نظام، ملک کے وسیع رقبے کی وجہ سے مؤثر ثابت نہ ہو سکا، جس کا انہوں نے برملا اعتراف کیا۔
بھارتی ڈپٹی آرمی چیف کے مطابق پاک فوج کے الفتح راکٹ سسٹم نے بھارت کے متعدد فوجی ٹھکانوں کو مؤثر طریقے سے نشانہ بنایا، جبکہ چین نے بھارتی سرزمین کو ایک تجرباتی لیبارٹری کے طور پر استعمال کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں جنگ کے دوران بروقت اسلحہ کی ترسیل نہیں ہو سکی، جس نے ہمیں دفاعی پوزیشن پر مجبور کر دیا۔راہول سنگھ کا کہنا تھا کہ ہمارا دشمن ایک نہیں، تین تھے پاکستان، ترکی اور چین جنہوں نے بیک وقت ہمیں چیلنج کیا۔”
یاد رہے کہ گزشتہ ماہ بھارتی ایئر چیف مارشل امرپریت سنگھ نے بھی شکایت کی تھی کہ بھارت کا دفاعی منصوبہ کبھی وقت پر مکمل نہیں ہوتا، جو بھارتی نظام میں موجود کمزوریوں کی عکاسی کرتا ہے۔دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق بھارتی قیادت کی طرف سے مسلسل شکایات اور الزامات دراصل اندرونی سیاسی خلفشار اور عسکری ناکامیوں کو چھپانے کی کوشش ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بھارت کی طرف سے تین ممالک پر الزام تراشی، شکست کے جواز کے سوا کچھ نہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان نے کبھی یہ شکایت نہیں کی کہ بھارت نے اسرائیلی یا فرانسیسی اسلحہ استعمال کیا، کیونکہ اصل جنگ جذبے، پیشہ ورانہ مہارت اور حکمت عملی سے جیتی جاتی ہے۔”ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان، بھارت کی کسی بھی مہم جوئی کی صورت میں اس کے معاشی و صنعتی ڈھانچے کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔اختتامیہ میں، دفاعی ماہرین نے مشورہ دیا ہے کہ بھارت کو الزام تراشی کے بجائے اپنی دفاعی حکمت عملی پر غور کرنا چاہیے، کیونکہ موجودہ روش نے اسے عالمی سطح پر تنہا کر دیا ہے۔