لاہور : آج معروف شاعر اور فلمی نغمہ نگار قتیل شفائی کو ہم سے رخصت ہوئے 24 برس گزر گئے۔ قتیل شفائی کا نام نہ صرف اردو شاعری کے دلدادگان میں بے حد عزت و احترام سے لیا جاتا ہے، بلکہ ان کی نغمہ نگاری نے پاکستان کی فلم انڈسٹری کو بھی ایک نیا رنگ دیا۔
ان کا اصل نام اورنگزیب خان تھا، مگر انہوں نے اپنے تخلص "قتیل” کے ساتھ استاد شفا کے نام کی مناسبت سے "شفائی” بھی لگایا۔ 24 دسمبر 1919ء کو خیبرپختونخوا کے علاقے ہری پور میں پیدا ہونے والے قتیل شفائی نے 13 برس کی عمر میں شاعری کا آغاز کیا اور 1942ء میں ان کا پہلا شعری مجموعہ ہریالی شائع ہوا۔پاکستان کی پہلی فلم "تیری یاد” میں نغمہ نگاری سے اپنے فلمی سفر کا آغاز کرنے والے قتیل شفائی نے 201 فلموں کے لیے 900 سے زائد گیت لکھے، جنہوں نے پاکستان کی فلمی تاریخ میں ایک سنہری دور کا آغاز کیا۔ ان کے گیت آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں اور ان کے کلام کی تاثیر ہر دور میں محسوس کی جاتی ہے۔
انہوں نے پاکستان کی معروف فلموں جیسے نائلہ، نوکر، انتظار اور عشق لیلیٰ کے لیے گیت تحریر کیے، جو نہ صرف پاکستان بلکہ بھارت میں بھی مقبول ہوئے۔ قتیل شفائی وہ پہلے پاکستانی نغمہ نگار تھے جنہیں بھارتی فلموں کے لیے بھی نغمہ نگاری کا اعزاز حاصل ہوا۔قتیل شفائی کے شعری مجموعوں میں ہریالی، جل ترنگ، روزن، جھومر، پیراہن، برگد، آوازوں کے سائے اور گفتگو شامل ہیں، جنہوں نے اردو ادب کی دنیا میں اپنی ایک منفرد پہچان بنائی۔
ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نوازا، جبکہ انہیں مختلف ایوارڈز جیسے آدم جی ایوارڈ، نقوش ایوارڈ، اباسین آرٹ کونسل ایوارڈ اور امیر خسرو ایوارڈ بھی ملے۔قتیل شفائی کی شاعری اور نغمہ نگاری نے نہ صرف پاکستان کی فلم انڈسٹری کو خوبصورت نغمات دیے بلکہ اردو ادب میں بھی ایک سنگ میل قائم کیا۔ ان کی کمی آج بھی شدت سے محسوس کی جاتی ہے، اور ان کی تخلیقات ہمیشہ کے لیے ہماری یادوں میں زندہ رہیں گی۔