لیہ:اسسٹنٹ سب انسپکٹر کا شہریوں سے2 لاکھ 40 ہزار روپے رشوت وصول کرنے کا انکشاف
لیہ:اے ایس آئی بلال نے بی آئی ایس پی ریٹیلر کی گاڑ ی سے قیمتی سامان بھی چرا لیا، خفیہ اداروں کی رپورٹ نے پول کھول دیا
لیہ:(نیوز رپورٹر) تفصیلات کے مطابق تھانہ سٹی کرپشن کا گڑھ بن چکا ہے، پولیس اہلکار شہریوں کو جان سے مارنے اور دہشتگردی کے مقدمات میں ملوث کرنے کی دھمکیاں دے کر بھتہ وصول کرنے لگے۔ خفیہ اداروں کی سامنے آئی رپورٹ کے مطابق 3 جولائی کو رات 10 بجے امام بارگاہ ولی کربلا کو ٹلہ حاجی شاہ کے سکیورٹی گارڈ نے حساس حالا ت کے پیش نظر 15 پر ایک گاڑی اور اس میں موجود2 مشکوک افراد کی اطلاع دی۔ جس پر ایس ایچ او دانش خان نتکانی اور اسسٹنٹ سب انسپکٹر بلا ل حسین موقع پر پہنچے گاڑی کو روک کر اس میں موجود 2 افراد سلیمان خان اور سعید احمد جو کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ریٹیلر تھے ان سے پوچھ گچھ کی تو انہوں نے بتایا کہ وہ مجلس میں شرکت کرنے والے دوست سے ملنے آئے ہیں اور ساتھ ہی قریب موجود بی آئی ایس پی آفیسر انصر عباس بھٹہ سے بھی ملاقات کرنے آئے ہیں۔
وضاحت کے باوجود پہلے امام بارگاہ کے سکیورٹی اہلکاروں نے دونوں افراد کو تشدد کا نشانہ بنایا بعد ازاں اسسٹنٹ سب انسپکٹر بلال حسین دونوں افراد کو گاڑی میں بٹھا کر تھانہ سٹی لے گیا جہاں اسسٹنٹ سب انسپکٹر بلال حسین اور کانسٹیبل اللہ دتہ نے ایس ایچ او دانش نتکانی کی موجودگی میں دونوں نوجوانوں کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا اور دونوں سے 4 لاکھ روپے رشوت طلب کی اور دھمکی دی کہ اگر رقم نہ دی تو امام بارگاہ متولی کی شکایت پر ان کے خلاف دہشتگردی کا مقدمہ درج کر دیا جائے گا۔
متاثرین نے اپنے جاننے والوں کو تھانے بلایا اور مبینہ طور پر 2 لاکھ 40 ہزار روپے میں ڈیل طے ہو گئی اور رات 2 بجے اے ٹی ایم کے ذریعے رقم نکلوا کر اسسٹنٹ سب انسپکٹر بلال حسین کو دی گئی جس پر دونوں نوجوانوں کو رات 3 بجے رہا کر دیا گیا۔ متاثرین جب اپنی گاڑی کے پاس پہنچے تو ان کی کار سے 1 لاکھ روپے مالت کی قیمتی اشیاء بفر، ایم پی فور سسٹم اور ایل سی ڈی وغیرہ بھی نکال لی گئی تھی۔
خفیہ ادارے کی رپورٹ پر واقعے میں ملوث 4 پولیس اہلکاروں اسسٹنٹ سب انسپکٹر بلال حسین، سکیورٹی انچارج محمد یاسر، کانسٹیبل اللہ دتہ اور سکیورٹی کانسٹیبل بلا ل حسین کو شوکاز نوٹس جاری کر دیا گیا۔ ذرائع کے مطابق اسسٹنٹ سب انسپکٹر بلا ل حسین سمیت دیگر کے خلاف پہلے بھی رشوت لینے، شہری کو ہراساں کرنے، ناجائز مقدمات درج کرنے اور اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے کے الزامات ہیں جن پر انکوائریاں بھی ہولڈ کی گئیں لیکن بااثر افراد کی ایما پر فائلوں کو دبا دیا گیا اور موصوف کو کرپشن کی کھلی چھوٹ مل گئی ہے۔ مبینہ طور پر وصول کی جانے والی رشوت میں اعلیٰ افسران بھی برابر کے حصہ دار ہوتے ہیں جس بنا پر کوئی کاروائی نہیں ہوتی۔
شوکاز نوٹس کے مندرجات کے مطابق ایسے واقعات پولیس کے رویئے کی بد ترین مثال ہیں جو قانون نافذ کرنے والے اداروں پر عوام کے اعتماد کو مجروح کرتے ہیں، چوری و مبینہ رشوت خوری پیشہ ور پولیس افسران کی نااہلی غیر ذمہ داری اور غفلت کا ارتکاب ہے، محکمانہ قواعد و ضوابط کی بھی سرا سر خلاف ورزی اور مس کنڈکٹ کے زمرے میں اآتی ہے، کہا گیا ہے کہ پولیس ای اینڈ ڈی رولز 1975 کے قاعدوں کی کلاس اے بی اور سی کے تحت غفلت اور بد سلوکی کا ارتکاب ہے، رولز 1975 کی مختلف شقوں کے تحت کاروائی عمل میں لائی جائے گی جس میں ملازمت سے برخاستگی جیسی بڑی سزائیں تجویز ہیں۔
6 جولائی کو جاری شوکاز نوٹسز کے تحت ملازمین سے 7 روز میں جواب طلب کیا گیا تھا، جواب موصول نہ ہونے کی صورت میں یکطرفہ کاروائی کئے جانے سے بھی آگاہ کیا گیا، ذرائع کے مطابق آر پی او ڈیرہ غازی خان سجاد حسن کی جانب سے بھی واقعے پر نوٹس لیا جا چکا ہے اور ذمہ داران کے خلاف سخت کاروائی کے احکامات جاری کئے جا چکے ہیں۔