پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائن (پی آئی اے) کو 2020 میں تحریک انصاف کی حکومت کے ایک وفاقی وزیر کے غیر ذمہ دارانہ بیان کے نتیجے میں 200 ارب روپے سے زائد کا نقصان اٹھانا پڑا، لیکن تاحال کسی کو بھی اس نقصان پر جوابدہ نہیں ٹھہرایا گیا۔
یہ بحران جون 2020ء میں اُس وقت پیدا ہوا جب پی ٹی آئی حکومت میں شامل وزیر وفاقی وزیر برائے ہوا بازی غلام سرور خان نے قومی اسمبلی میں بیان دیا کہ بڑی تعداد میں پاکستانی پائلٹس ’’جعلی‘‘ یا مشکوک لائسنس کے ساتھ پروازیں کر رہے ہیں، بغیر تحقیق و تصدیق کے دیا گیا یہ بیان عالمی سطح پر شدید ردعمل کا باعث بنا تھا۔وزارت دفاع کے ذرائع کے مطابق اس غیر ذمہ دارانہ بیان کے اثرات تباہ کن ثابت ہوئے اور بیان کے فوراً بعد برطانیہ، یورپ اور امریکا نے پی آئی اے کی پروازوں پر پابندی عائد کر دی جس کے نتیجے میں قومی ائیرلائن کو 200 ارب روپے سے زائد کا ریونیو نقصان ہوا جب کہ صرف منافع کا نقصان ہی کم از کم 12.7 ارب روپے تک ہوا۔
اس کے علاوہ بیرون ملک کام کرنے والے درجنوں پاکستانی پائلٹس نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے یا پھر غیر معینہ مدت کیلئے معطل ہو گئے، ساتھ ہی انشورنس پریمیم اور آپریشنل اخراجات میں اضافہ ہوا جب کہ پاکستان کی بین الاقوامی ایوی ایشن ریٹنگ گر گئی اور سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) کی ساکھ شدید متاثر ہوئی۔ایک اعلیٰ عہدیدار کا کہنا تھا کہ عالمی سطح پر حساس قومی معاملے کو غلط انداز میں پیش کرنے کی یہ شاندار مثال تھی تاہم، اس قدر زبردست نقصان کے باوجود آج تک کسی کیخلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی، حکومت کی جانب سے جس انکوائری کا وعدہ کیا گیا تھا وہ کبھی منظر عام پر نہیں آئی، اس نقصان میں ملوث افراد کو جوابدہ بھی نہیں ٹھہرایا گیا جنہوں نے بغیر تحقیق ایسے الزامات عائد کیے۔
یورپی یونین کے بعد برطانیہ نے حال ہی میں پی آئی اے پر عائد 4 سالہ پابندی ختم کر دی ہے، اس اقدام کو قومی ائیرلائن کی عالمی ساکھ کی بحالی کی طرف ایک مثبت پیش رفت سمجھا جا رہا ہے اور ان اہم بین الاقوامی روٹس کے دوبارہ کھلنے سے توقع ہے کہ جاری نجکاری کے عمل میں پی آئی اے کو بہتر قیمت ملے گی کیونکہ یورپ اور برطانیہ کی منڈیوں تک رسائی اس کی تجارتی قدر اور سرمایہ کاروں کے اعتماد میں اضافہ کرے گی۔جس وقت قومی ائیرلائن اپنی سب سے منافع بخش پروازوں کی بحالی کی تیاری کر رہی ہے، اس وقت سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’’جعلی پائلٹ لائسنس‘‘ اسکینڈل کے نتیجے میں پاکستان کو پہنچنے والے مالی اور ساکھ کے نقصان کا ذمہ دار کون تھا؟