واشنگٹن : فرانس، جرمنی، برطانیہ، اٹلی، پولینڈ، فن لینڈ اور یورپی کمیشن کی صدر نے یوکرین میں جنگ روکنے اور دیرپا امن کے قیام کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کوششوں کا خیرمقدم کیا ہے۔ یورپی ممالک نے الاسکا میں ہونے والی ٹرمپ اور پیوٹن کی ملاقات کا استقبال کیا، لیکن ساتھ ہی ایک تجویز بھی پیش کی کہ کسی بھی اقدام سے پہلے جنگ بندی کی جائے۔
یورپ نے تجویز دی کہ اگر یوکرین کو روس کے زیرقبضہ علاقے چھوڑنے پڑے، تو اسے نیٹو کا رکن بنانے کا وعدہ کیا جائے تاکہ یوکرین کو تحفظ مل سکے۔ اس مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ یوکرین کی تقدیر کا فیصلہ اس کے بغیر نہیں کیا جا سکتا، اور جنگ کو روکنے کے لیے سفارتکاری، یوکرین کی مدد، اور روس پر دباؤ ضروری ہے۔ یورپ نے یوکرین کو فوجی اور مالی مدد فراہم کرنے کی بھی یقین دہانی کرائی۔بیان میں واضح کیا گیا کہ یوکرین کو اپنی تقدیر کا انتخاب کرنے کی آزادی حاصل ہے، اور عالمی سطح پر یہ اصول تسلیم کیا گیا ہے کہ کسی بھی ملک کی سرحدوں کو طاقت کے ذریعے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔
روسی میڈیا کے مطابق، یورپی ممالک نے امریکا سے یہ تجویز بھی کی ہے کہ اگر یوکرین کو اپنے زیرقبضہ علاقے چھوڑنے پڑیں، تو یوکرین کو تحفظ دینے کے لیے اسے نیٹو کا رکن بنایا جائے۔ یہ مطالبہ صرف اس صورت میں تسلیم کیا جائے گا جب یوکرین اور روس دونوں اپنے زیرقبضہ علاقے چھوڑنے پر آمادہ ہوں۔اس وقت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی ملاقات 15 اگست کو الاسکا میں طے ہو چکی ہے، جس پر صدر ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر اعلان کیا تھا۔
دوسری جانب یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی نے صاف طور پر کہا ہے کہ یوکرین اپنی سرزمین کا کوئی حصہ نہیں چھوڑے گا اور وہ اپنی خودمختاری اور علاقائی سالمیت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ امن کا راستہ انصاف سے ہی ممکن ہے اور عالمی برادری کو روس پر دباؤ ڈالنا چاہیے تاکہ جنگ ختم ہو سکے۔