واشنگٹن :امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کے چار سینئر اہلکاروں — دو ججوں اور دو پراسیکیوٹرز — پر پابندیاں عائد کر دی ہیں، جن کے تحت ان کے امریکہ میں موجود اثاثے منجمد کر دیے گئے ہیں اور انہیں مالیاتی نظام سے خارج کر دیا گیا ہے۔
یہ قدم ایسے وقت میں اٹھایا گیا ہے جب آئی سی سی نے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو، سابق وزیر دفاع یواف گیلنٹ اور حماس رہنما ابراہیم المصری کے خلاف غزہ کی جنگ میں مبینہ جنگی جرائم کے الزام میں گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے۔ ماضی میں افغانستان میں امریکی افواج کے ممکنہ جرائم کی تحقیقات کی اجازت بھی دی جا چکی ہے۔امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے اپنے بیان میں کہا کہ "بین الاقوامی فوجداری عدالت ہماری خودمختاری پر حملہ آور ہو رہی ہے اور اسے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔” ان کا کہنا تھا کہ یہ عدالت امریکا اور اسرائیل کے خلاف قانونی جنگ کا ذریعہ بن چکی ہے۔
پابندیوں کی زد میں آنے والے اہلکاروں میں فرانس کے نکولس یان گیو، فیجی کی نزہت شمیم خان، سینیگال کے مامے منڈیائے نیانگ اور کینیڈا کی کمبرلی پروسٹ شامل ہیں۔کولس یان گیو اس پینل کے سربراہ تھے جس نے نیتن یاہو کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کیے، جبکہ کمبرلی پروسٹ اُن ججوں میں شامل تھیں جنہوں نے افغانستان میں امریکی کردار کی تحقیقات کی منظوری دی تھی۔یہ دوسرا موقع ہے جب ٹرمپ انتظامیہ نے آئی سی سی کے خلاف براہِ راست اقدام کیا ہے۔ اس سے قبل 2020 میں بھی عدالت کے بعض اعلیٰ افسران پر پابندیاں لگائی جا چکی ہیں۔
آئی سی سی نے ان پابندیوں کو عدالت کی آزادی اور غیر جانبداری پر حملہ قرار دیا ہے، جبکہ قانونی ماہرین نے اس عمل کو عالمی انصاف کے لیے ایک خطرناک مثال قرار دیا ہے، خاص طور پر یوکرین، غزہ، سوڈان اور افغانستان جیسے حساس مقدمات کے تناظر میں۔قابلِ ذکر ہے کہ انٹرنیشنل کرمنل کورٹ 2002 میں عالمی جرائم جیسے نسل کشی، جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم پر مقدمات چلانے کے لیے قائم کی گئی تھی۔ عدالت کو 125 ممالک کی حمایت حاصل ہے، تاہم امریکہ، اسرائیل، روس اور چین اس کے دائرہ اختیار کو تسلیم نہیں کرتے۔