اسلام آباد: نئے عدالتی سال کے آغاز پر اسلام آباد میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کی صدارت میں جوڈیشل کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں ملک بھر کے ججز، اٹارنی جنرل اور وکلا نے شرکت کی۔
چیف جسٹس نے خطاب میں عدالتی نظام میں اصلاحات کا اعلان کیا اور کہا کہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس (AI) کے استعمال پر کام جاری ہے، تاہم یہ نظام مکمل طور پر تیار نہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پانچ شعبوں میں اصلاحات شروع کی گئی ہیں تاکہ سائلین کو شفاف اور فوری انصاف فراہم کیا جا سکے۔
چیف جسٹس کے مطابق عدالتوں میں ای سروسز اور ڈیجیٹل کیس فائلنگ کا نظام متعارف کروایا جا چکا ہے جبکہ 61 ہزار فائلوں کی ڈیجیٹل اسکیننگ کا پراجیکٹ چھ ماہ میں مکمل ہوگا۔ اس کے بعد مقدمات کی تقرری کے لیے AI کا استعمال ممکن بنایا جائے گا۔
مزید برآں، اندرونی آڈٹ کا نظام فعال کر دیا گیا ہے۔ سپریم جوڈیشل کونسل نے ججز کے خلاف 64 شکایات نمٹا دی ہیں جبکہ مزید 72 پر کارروائی جاری ہے۔ اس ماہ کے آخر تک مزید 65 کیسز ججز کو بھجوا دیے جائیں گے۔
چیف جسٹس نے یکم اکتوبر سے فیسیلی ٹیشن سنٹر کے قیام کا اعلان کیا، جہاں وکلا اور سائلین کو عدالتی معلومات آسانی سے میسر ہوں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ رولز فوری طور پر تبدیل نہیں کیے جا سکتے، لیکن کمیٹی کی سفارشات کے مطابق بتدریج اصلاحات کی جائیں گی۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اسلام آباد ریڈ زون میں ججز کی سکیورٹی کم کی گئی ہے تاکہ پروٹوکول میں نرمی آئے۔ ساتھ ہی سپریم کورٹ میں اینٹی کرپشن ہیلپ لائن اور عوامی رائے کے لیے خصوصی پورٹل کے قیام کا اعلان کیا۔ ججز کی چھٹیوں کے قوانین بھی واضح کر دیے گئے ہیں تاکہ تعطیلات کے باعث عدالتی امور متاثر نہ ہوں۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے خطاب میں کہا کہ آئین و قانون کی پاسداری شفاف عدالتی نظام کی بنیاد ہے اور فوری انصاف کی فراہمی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کو ٹیکنالوجی اور AI کا بھرپور استعمال کرنا چاہیے تاکہ مقدمات کے التواء میں کمی آئے۔
پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین طاہر نصر اللہ وڑائچ نے چیف جسٹس کے اقدامات کو سراہا اور کہا کہ ان کی قیادت میں دور دراز عدالتوں کو انٹرنیٹ اور سولرائزیشن جیسی سہولیات دی جا رہی ہیں جو عدالتی نظام کو مضبوط بنائیں گی۔
صدر سپریم کورٹ بار میاں محمد رؤف عطا نے کہا کہ وکلا آئین اور قانون کے محافظ ہیں۔ انہوں نے سیلابی تباہ کاریوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے موسمیاتی تبدیلی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے مؤثر حکمت عملی پر زور دیا۔