7 اکتوبر 2023 کو حماس کی قیادت میں فلسطینی مجاہدین نے اسرائیل کے خلاف ’’طوفان الاقصیٰ‘‘ کے نام سے کارروائی شروع کی تھی، جس کے نتیجے میں خطے میں ایک نئی اور خونریز جنگ بھڑک اٹھی۔
اس حملے کے دوران فلسطینی مجاہدین نے اسرائیلی سرحدی رکاوٹیں توڑ کر قریبی بستیوں میں داخل ہو کر اسرائیلی افواج کو حیران کر دیا۔ انہوں نے 251 افراد کو یرغمال بنایا جس کے بعد اسرائیل نے پوری شدت کے ساتھ غزہ پر جنگ مسلط کردی۔ اسرائیلی حکومت نے فوری طور پر تین لاکھ ساٹھ ہزار ریزرو فوجیوں کو طلب کر کے غزہ کی تباہ کن بمباری شروع کی، جو آج دو سال بعد بھی جاری ہے۔
امریکی صدر سمیت عالمی رہنماؤں کی جانب سے غزہ پر حملے روکنے کے مطالبات کو بھی اسرائیل نے مسلسل نظر انداز کیا۔ صیہونی افواج کی بربریت میں کمی آنے کے بجائے مزید اضافہ ہوا۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق آج بھی اسرائیلی بمباری میں 24 فلسطینی شہید ہو گئے، جب کہ کئی درجن زخمی حالت میں ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔
دو سال سے جاری ان حملوں میں خواتین اور بچوں سمیت 67 ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور ایک لاکھ ستر ہزار کے قریب زخمی ہو چکے ہیں۔ اسرائیلی ناکہ بندی کے سبب بیس لاکھ سے زائد لوگ بھوک اور پیاس سے نڈھال ہیں۔ کھانے پینے کی اشیاء، ادویات اور ایندھن کی شدید قلت نے غزہ کو ایک انسانی المیہ بنا دیا ہے۔ اسپتالوں میں دوائیں ختم، بجلی بند اور زخمیوں کا علاج تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔
غزہ کے بیشتر علاقے کھنڈر میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ اسپتال، مساجد، گرجا گھر، اسکول، کالجز اور تعلیمی ادارے مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔ لاکھوں افراد بے گھر ہو گئے ہیں اور بچے ملبے کے ڈھیر پر زندگی کی بھیک مانگنے پر مجبور ہیں۔ امدادی قافلوں کو بھی بارہا روکا گیا، جبکہ عالمی ادارے مسلسل ناکام احتجاج کرتے رہے۔
فلسطینی عوام کا کہنا ہے کہ دنیا کی خاموشی ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے اسرائیلی مظالم پر بیانات تو سامنے آئے، مگر کوئی عملی اقدام نہ اٹھایا گیا۔ فلسطینی مزاحمتی تنظیموں نے اعلان کیا ہے کہ وہ آزادی اور اپنی سرزمین کے دفاع کی جنگ آخری سانس تک جاری رکھیں گے۔
غزہ کی یہ تباہی آج دنیا کے ضمیر کے لیے ایک سوال بن چکی ہے۔ دو سال گزر جانے کے باوجود نہ جنگ رکی، نہ ظلم تھما۔ انسانیت آج بھی ملبے تلے سسک رہی ہے اور دنیا کے بڑے طاقتور ملک محض تماشائی بنے ہوئے ہیں۔