اسلام آباد: پاکستانی سکیورٹی ذرائع نے واضح کیا ہے کہ افغان جانب سے کی گئی جارحیت پر پاکستان کا جوابی ردِعمل صرف دہشت گرد ٹھکانوں اور تربیتی مراکز تک محدود رہے گا اور اسے پاکستان اور افغانستان کے عوام کے درمیان جنگ قرار نہیں دیا جانا چاہیے۔
ذرائع کے مطابق پاک افغان بارڈر پر افغان فورسز کی جانب سے بلااشتعال فائرنگ کے جواب میں پاک فوج نے بھرپور کارروائی کرتے ہوئے متعدد افغان پوسٹوں اور مسلح عناصر کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں درجنوں افغان فوجی اور خوارج ہلاک ہوئے اور کئی چوکیوں کو خالی چھوڑنا پڑا۔ سکیورٹی ذرائع نے کہا کہ پاکستانی کارروائیوں کا مقصد محض دفاع اور دہشت گرد ساختوں کے خلاف کارروائی ہے، نہ کہ کسی قوم یا عام شہریوں کے خلاف کوئی مہم چلانا۔
ذرائع نے مزید کہا کہ حالیہ افغان جارحیت مبینہ طور پر مخصوص گروہوں اور عسکری عناصر کی جانب سے مسلط کی گئی ہے اور اس میں بیرونی فریقین کی مالی یا دیگر معاونت کے شواہد بھی سامنے آئے ہیں — ان کا کہنا تھا کہ اس کوشش کا مقصد پاکستان میں عدم استحکام پھیلانا اور سرحدی کشیدگی کو ہوا دینا تھا۔ ذرائع نے خاص طور پر اشارہ کیا کہ بعض عناصر کے پشت پناہ ہونے کے باعث انتہائی قدم اٹھانا پڑا، تاہم پاکستان کا کوئی ارادہ نہیں کہ وہ افغان عوام یا عوامی مقامات کو نشانہ بنائے۔
سکیورٹی حکام نے واضح کیا کہ آپریشنز کی نوعیت محدود اور ہدف مخصوص ہے: پاک فوج نے جوابی کارروائی میں دہشت گرد مراکز، تربیتی کیمپس اور سرحد پار سے حملوں میں ملوث چوکیوں کو خصوصاً ہدف بنایا۔ حکام نے یہ بھی بتایا کہ کارروائیاں تب تک جاری رکھی جائیں گی جب تک پاکستان کی سرحدی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے درکار نتائج حاصل نہ ہو جائیں۔
حکومت اور فوجی ذرائع نے بین الاقوامی برادری اور علاقائی شراکت داروں سے اپیل کی ہے کہ وہ اس کشیدگی کو صرف دو ملکوں کے درمیان سرحدی جھڑپوں تک محدود رکھنے اور حالات کو نہ بگاڑنے میں مدد کریں۔ سکیورٹی حلقوں کا بھی مؤقف ہے کہ سفارتی رابطوں، مانیٹرنگ میکانزم اور روایتی ڈپلومیسی کے ذریعے کشیدگی کو کم کیا جانا چاہیے تاکہ عام عوام کے مفادات اور خطے کا استحکام محفوظ رہے۔