اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس ارباب محمد طاہر نے شہری مشرف زین کی درخواست پر سماعت کی۔ درخواست گزار اپنے وکیل کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے۔
دورانِ سماعت عدالت نے استفسار کیا کہ اس نوعیت کے معاملے میں عدالت کس کو ہدایت جاری کرے؟ جس پر وکیلِ درخواست گزار نے بتایا کہ انچارج فیصل مسجد سمیت متعدد متعلقہ حکام کو فریق بنایا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز سے ظاہر ہوتا ہے کہ بعض افراد مسجد کے احاطے میں غیر شائستہ انداز میں ویڈیوز بناتے ہیں، جن میں موسیقی اور رقص کے مناظر شامل ہوتے ہیں، جو مسجد کی حرمت اور تقدس کے منافی ہیں۔
درخواست گزار کے مطابق نیم عریاں لباس میں بنائی جانے والی ویڈیوز مسجد کے تقدس کے خلاف ہیں اور اس سے آئین کے آرٹیکل 20 کے تحت مذہبی آزادی کے حق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ اس معاملے پر مسجد کے انچارج، ڈپٹی کمشنر اسلام آباد اور چیئرمین سی ڈی اے کو متعدد تحریری شکایات بھجوائی گئیں مگر کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔
درخواست میں مزید بتایا گیا کہ وزیرِ مذہبی امور، صدر انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اور آئی جی اسلام آباد کو بھی تحریری شکایات بھجوائی جا چکی ہیں۔ عدالت سے استدعا کی گئی کہ فیصل مسجد میں فحش یا نامناسب لباس میں داخلے، اور رقص یا موسیقی کے ساتھ ویڈیوز بنانے پر مکمل پابندی عائد کی جائے۔
عدالت عالیہ نے دلائل سننے کے بعد انچارج فیصل مسجد، ڈپٹی کمشنر اسلام آباد، چیئرمین سی ڈی اے، وزارتِ مذہبی امور، صدر انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی، آئی جی پولیس اسلام آباد اور وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر جواب طلب کر لیا۔