واشنگٹن: امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا ہے کہ متعدد ممالک غزہ میں امن قائم کرنے کے لیے بین الاقوامی فورس میں حصہ لینے کے لیے تیار ہیں، جبکہ اسرائیلی پارلیمنٹ کی جانب سے مغربی کنارے کے انضمام کا فیصلہ امن عمل کے لیے سنگین خطرہ بن سکتا ہے۔
غزہ کی تازہ ترین صورتحال پر بین الاقوامی برادری کی تشویش میں اضافہ ہو رہا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے ایک پریس بریفنگ میں کہا کہ واشنگٹن خطے میں پائیدار امن کے قیام کے لیے اتحادی ممالک کے ساتھ رابطے میں ہے، اور کئی ممالک نے غزہ امن فورس میں شمولیت کی رضامندی ظاہر کی ہے۔ ان کے مطابق، اس فورس کا بنیادی مقصد نہ صرف جنگ بندی کو یقینی بنانا ہوگا بلکہ شہری آبادی کو تحفظ فراہم کرنا، امدادی راستوں کو کھلا رکھنا اور انسانی بحران پر قابو پانا بھی اس مشن کے اہم اہداف میں شامل ہوگا۔ روبیو نے واضح کیا کہ اسرائیل کو اپنی پالیسیوں پر نظرِ ثانی کرنی چاہیے کیونکہ مغربی کنارے کے انضمام کا عمل خطے میں مزید کشیدگی پیدا کر سکتا ہے۔
اسی دوران، امریکی درخواست پر برطانوی فوجیوں کو اسرائیل میں تعینات کیا گیا ہے تاکہ وہ غزہ امن منصوبے کی نگرانی کر سکیں۔ برطانوی وزارتِ دفاع کے مطابق، ایک سینئر کمانڈر کی قیادت میں محدود تعداد میں اہلکار روانہ کیے گئے ہیں جو زمینی صورتحال کا جائزہ لیں گے اور امن معاہدے کی پیش رفت پر رپورٹ تیار کریں گے۔ برطانوی میڈیا کے مطابق، ان فوجیوں کی تعیناتی صرف مشاہداتی مقاصد کے لیے ہے، اور انہیں کسی براہِ راست عسکری کارروائی میں شامل نہیں کیا جائے گا۔
دوسری جانب، امریکی سینٹ کام (CENTCOM) کے سربراہ ایڈمرل بریڈ کوپر نے کہا کہ غزہ امن منصوبے کی نگرانی کے لیے بھیجے جانے والے دو سو فوجیوں میں کوئی امریکی اہلکار شامل نہیں ہوگا۔ انہوں نے بتایا کہ یہ اہلکار مختلف اتحادی ممالک، جن میں یورپی اور مشرقِ وسطیٰ کے بعض ممالک شامل ہیں، سے تعلق رکھتے ہیں، اور ان کی ذمہ داری غزہ معاہدے کے عملی نفاذ کی نگرانی اور اقوام متحدہ کے ساتھ رابطہ کاری ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس مشن کا مقصد کسی فریق کی حمایت یا مخالفت نہیں بلکہ خطے میں امن کی بحالی اور انسانی جانوں کا تحفظ ہے۔
عالمی سطح پر یہ پیش رفت اس وقت سامنے آئی ہے جب غزہ میں جاری کشیدگی نے انسانی المیہ کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ اسپتالوں میں ایندھن اور طبی سامان کی قلت ہے، اور ہزاروں بے گھر افراد اقوام متحدہ کے کیمپوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ عالمی تنظیمیں مسلسل مطالبہ کر رہی ہیں کہ اسرائیل اور حماس دونوں فریق فوری جنگ بندی کریں تاکہ انسانی امداد کی فراہمی ممکن ہو سکے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق، بین الاقوامی امن فورس کی موجودگی غزہ میں کسی حد تک استحکام لا سکتی ہے، مگر اسرائیل کی پالیسیوں اور فلسطینی قیادت کے درمیان اعتماد کی کمی سب سے بڑا چیلنج رہے گا۔
امریکی وزیر خارجہ نے اسرائیلی پارلیمنٹ کے فیصلے پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اگر اسرائیل نے مغربی کنارے کے انضمام کے عمل کو جاری رکھا تو یہ اقدام نہ صرف غزہ امن منصوبے کو ناکام بنا سکتا ہے بلکہ خطے میں مزید تشدد کو ہوا دے گا۔ ان کے مطابق، یہ فیصلہ عالمی برادری کی کوششوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے، اور واشنگٹن سمجھتا ہے کہ اسرائیل کو اب ایک جامع سیاسی حل کی طرف بڑھنا چاہیے، نہ کہ زمینی حقائق کو یکطرفہ فیصلوں کے ذریعے بدلنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
بین الاقوامی مبصرین کا خیال ہے کہ برطانوی فوجیوں کی محدود تعیناتی دراصل ایک ابتدائی قدم ہے جو مستقبل میں ایک مکمل بین الاقوامی امن فورس کی تشکیل کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔ اگر اس فورس کو اقوام متحدہ یا نیٹو کی سطح پر باقاعدہ حیثیت مل گئی، تو یہ مشن غزہ میں پائیدار جنگ بندی، بحالی کے اقدامات اور سیاسی مذاکرات کے لیے بنیاد فراہم کر سکتا ہے۔ تاہم، اس عمل کی کامیابی کا انحصار اسرائیل، فلسطین اور عالمی طاقتوں کے درمیان تعاون اور اعتماد کی فضا پر ہوگا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق، امریکہ اس وقت مشرقِ وسطیٰ میں ایک نئے توازن کی تلاش میں ہے، جہاں وہ براہِ راست مداخلت کے بجائے اتحادی ممالک کے ذریعے امن کردار کو فروغ دینا چاہتا ہے۔ اگر یہ حکمتِ عملی کامیاب ہو جاتی ہے تو یہ غزہ ہی نہیں بلکہ پورے خطے میں دیرپا امن کے لیے ایک مثبت پیش رفت ثابت ہو سکتی ہے۔