تل ابیب: اسرائیلی پارلیمنٹ (کنیسٹ) نے مقبوضہ مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم کرنے کے لیے پیش کردہ متنازعہ بل کے پہلے مرحلے میں منظوری دے دی ہے۔ بل کے حق میں 25 اور مخالفت میں 24 ووٹ ڈالے گئے، جس کے بعد اسے مزید غور کے لیے خارجہ امور و دفاعی کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا ہے۔ اس فیصلے کو اسرائیل کی داخلی سیاست میں ایک بڑا موڑ قرار دیا جا رہا ہے، کیونکہ یہ اقدام براہِ راست بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کی قراردادوں سے متصادم ہے۔
عالمی سطح پر اس بل کی منظوری کے بعد سخت ردِعمل سامنے آیا ہے۔ سعودی عرب نے اسرائیل کے اس فیصلے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اقدام نہ صرف فلسطینی سرزمین پر ناجائز قبضے کی کوشش ہے بلکہ خطے میں امن کے امکانات کو بھی مجروح کرتا ہے۔ سعودی وزارتِ خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ اسرائیل کی جانب سے مغربی کنارے کے انضمام کی کوشش اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہے، اور یہ کہ ریاض فلسطینی عوام کے حقوق کی ہر سطح پر حمایت جاری رکھے گا۔
قطر نے بھی اسرائیلی فیصلے کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ مقبوضہ مغربی کنارے کا انضمام فلسطینیوں کے بنیادی حقوق پر حملہ ہے۔ قطری وزارتِ خارجہ نے اپنے بیان میں واضح کیا کہ اسرائیل کے اس اقدام سے خطے میں کشیدگی مزید بڑھے گی اور دو ریاستی حل کے امکانات تقریباً ختم ہو جائیں گے۔ دوحہ نے اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں سے اپیل کی ہے کہ وہ فوری طور پر مداخلت کریں اور اسرائیل کو اس توسیع پسندانہ پالیسی سے باز رکھیں، جو نہ صرف امن معاہدوں بلکہ عالمی قانون کے بنیادی ڈھانچے کے لیے بھی خطرہ ہے۔
یہ ووٹنگ ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب امریکی نائب صدر جے ڈی وینس اسرائیل کے دورے پر ہیں، جہاں وہ غزہ میں جاری جنگ بندی معاہدے کو مستحکم کرنے اور امن مذاکرات کی بحالی کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔ امریکی حکام کے مطابق، وینس کا دورہ ایک حساس مرحلے پر ہو رہا ہے، کیونکہ واشنگٹن کی خواہش ہے کہ اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان کم از کم ایک عبوری معاہدہ طے پا جائے تاکہ مزید خون خرابے سے بچا جا سکے۔
ادھر امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے اسرائیلی اقدام پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ مغربی کنارے کے انضمام کا عمل اور آباد کاروں کے بڑھتے ہوئے تشدد کے واقعات غزہ امن معاہدے کے لیے براہِ راست خطرہ بن سکتے ہیں۔ ان کے مطابق، اسرائیل کو اپنی داخلی سیاسی ترجیحات سے بالاتر ہو کر خطے میں امن کے وسیع تر مفاد کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ روبیو نے یاد دلایا کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی ایسے کسی بھی انضمامی اقدام کی مخالفت کی تھی اور اسرائیل کو خبردار کیا تھا کہ یہ پالیسی مشرقِ وسطیٰ میں امریکی سفارتی کوششوں کو کمزور کر سکتی ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق، اسرائیلی پارلیمنٹ کا یہ فیصلہ نہ صرف فلسطین بلکہ خود اسرائیل کے لیے بھی سفارتی بحران کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اگر یہ بل کمیٹی مرحلے سے گزر کر حتمی منظوری حاصل کر لیتا ہے تو بین الاقوامی سطح پر اسرائیل کو سخت ردعمل، ممکنہ اقتصادی پابندیوں اور سیاسی تنہائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ اقدام دراصل اسرائیل کی داخلی سیاست میں دائیں بازو کے دباؤ کا نتیجہ ہے، جہاں وزیرِاعظم نتن یاہو کی حکومت اپنے اتحادیوں کو خوش کرنے کے لیے سخت گیر اقدامات کی راہ پر گامزن ہے۔
دوسری جانب فلسطینی اتھارٹی نے اس فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں فوری اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا ہے۔ فلسطینی صدر محمود عباس نے کہا ہے کہ اسرائیل کے یہ اقدامات امن مذاکرات کو مکمل طور پر تباہ کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مغربی کنارے پر قبضے کی یہ کوشش فلسطینی ریاست کے قیام کی امیدوں کو ختم کرنے کے مترادف ہے اور فلسطینی عوام اس کے خلاف بھرپور مزاحمت کریں گے۔
خطے کے دیگر ممالک بشمول اردن، ترکی اور مصر نے بھی اسرائیلی فیصلے کی مخالفت کی ہے۔ اردن نے اپنے بیان میں خبردار کیا ہے کہ اگر اسرائیل نے مغربی کنارے کا انضمام آگے بڑھایا تو یہ معاہدہ امن کی کھلی خلاف ورزی ہوگی، جس کے سنگین نتائج نکل سکتے ہیں۔ مصر نے بھی کہا ہے کہ یہ اقدام نہ صرف خطے کے امن کے لیے خطرناک ہے بلکہ اس سے بین الاقوامی تعلقات میں عدم استحکام پیدا ہوگا۔
بین الاقوامی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اسرائیل کا یہ متنازعہ قدم غزہ میں جاری امن منصوبے کو متاثر کر سکتا ہے۔ امریکی قیادت کی موجودہ کوششوں کے باوجود، اگر اسرائیل نے اس بل کو حتمی منظوری دے دی تو فلسطین اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی میں شدت آنے کا خدشہ ہے۔ ماہرین کے مطابق، یہ فیصلہ عالمی سطح پر اسرائیل کو تنقید کے دائرے میں مزید لائے گا اور اس کے علاقائی اتحادی بھی دباؤ کا شکار ہو سکتے ہیں۔
یہ صورتحال ایک نئے سفارتی بحران کی نشاندہی کر رہی ہے، جہاں ایک طرف امن کے نام پر مذاکرات کی بات ہو رہی ہے اور دوسری جانب زمینی حقائق کو طاقت کے زور پر تبدیل کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر عالمی برادری نے فوری طور پر مداخلت نہ کی تو مغربی کنارے کا مسئلہ مشرقِ وسطیٰ میں ایک نئے بحران کو جنم دے سکتا ہے، جو نہ صرف اسرائیل اور فلسطین بلکہ پورے خطے کے امن کے لیے خطرناک ثابت ہوگا۔