واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ روسی صدر ولادی میر پیوٹن سے ملاقات کا ارادہ نہیں تھا کیونکہ انہیں یہ مناسب نہیں لگا، اس لیے اس ملاقات کو منسوخ کر دیا گیا۔ ٹرمپ نے اوول آفس میں نیٹو سیکرٹری جنرل کے ہمراہ صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اس بات کا اعلان کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں روس کے ساتھ براہِ راست بات چیت مؤثر ثابت نہیں ہو سکتی کیونکہ روس یوکرین پر حملوں کے بعد عالمی سطح پر سفارتی تنہائی کا شکار ہو چکا ہے۔
صدر ٹرمپ نے کہا کہ آج ایک اہم دن ہے، کیونکہ امریکہ نے روس کی دو بڑی تیل کمپنیوں پر پابندیاں عائد کی ہیں۔ ان کے مطابق یہ فیصلہ روسی معیشت پر دباؤ بڑھانے اور یوکرین میں جاری جنگ کو ختم کرنے کے لیے ایک واضح پیغام ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ آئندہ بھی روس کے خلاف سخت اقدامات جاری رکھے گا تاکہ ماسکو کو جنگی پالیسیوں پر نظرِثانی کرنے پر مجبور کیا جا سکے۔
ٹرمپ نے وضاحت کی کہ روس اور یوکرین کے درمیان جنگ دراصل بائیڈن انتظامیہ کی ناکام پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بائیڈن کے دورِ حکومت میں روس نے جارحانہ اقدامات تیز کیے، اور اگر وہ صدر ہوتے تو یہ جنگ کبھی شروع ہی نہ ہوتی۔ ٹرمپ نے کہا کہ وہ اس جنگ کو روکنے کے لیے عملی اقدامات کر رہے ہیں، اور امید ہے کہ نئی پابندیاں ولادی میر پیوٹن کو معقول رویہ اختیار کرنے پر مجبور کر دیں گی۔
انہوں نے کہا کہ جب بھی ان کی پیوٹن سے بات ہوئی، وہ تعمیری ماحول میں ہوئی، لیکن ان ملاقاتوں سے کوئی دیرپا نتیجہ نہیں نکلا۔ ٹرمپ کے مطابق، اب وقت آ گیا ہے کہ روس کے خلاف مشترکہ عالمی دباؤ بڑھایا جائے تاکہ یوکرین میں جاری انسانی بحران ختم ہو سکے۔ انہوں نے یوکرین کو دی جانے والی طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں سے متعلق افواہوں کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے وضاحت کی کہ یوکرین امریکی نہیں بلکہ یورپی ساختہ میزائل استعمال کر رہا ہے۔
امریکی صدر نے کہا کہ روس اور یوکرین کی جنگ میں ہر ہفتے ہزاروں افراد مارے جا رہے ہیں، اور اگر عالمی طاقتوں نے بروقت اقدام نہ کیا تو یہ تنازع پورے یورپ کے امن کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ عالمی برادری کے ساتھ مل کر روس پر مزید معاشی اور سفارتی دباؤ بڑھانے کا ارادہ رکھتا ہے تاکہ وہ جنگ بندی کے لیے مذاکرات کی میز پر آنے پر مجبور ہو۔
ٹرمپ نے اس موقع پر چین اور شمالی کوریا کے دوروں کا بھی ذکر کیا، اور کہا کہ وہ آئندہ ہفتوں میں چینی صدر سے ملاقات کریں گے تاکہ ایشیائی خطے میں استحکام کے حوالے سے بات چیت کی جا سکے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ روس پر عائد پابندیاں جلد ہی مثبت نتائج دیں گی اور ماسکو کو اپنے فیصلوں پر ازسرِنو غور کرنا پڑے گا۔
انہوں نے بائیڈن انتظامیہ پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ امریکی صدر ملکی تاریخ کے بدترین رہنما ہیں جنہوں نے داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر ملک کو کمزور کیا۔ ٹرمپ نے کہا کہ غیر قانونی تارکین وطن کا بحران، مہنگائی میں اضافہ اور امریکی اثر و رسوخ کی کمی بائیڈن کی ناقص پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔
نیو سیکرٹری جنرل مارک روٹے نے بھی اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ اور نیٹو اتحادیوں کے تازہ اقدامات روس پر دباؤ ڈالنے کے لیے اہم قدم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فی الحال روس مذاکرات کے لیے تیار نہیں، مگر مسلسل پابندیوں اور عالمی دباؤ کے باعث اسے آخرکار مذاکرات کی میز پر آنا پڑے گا۔ ان کے مطابق، یوکرین کی آزادی اور خودمختاری کے دفاع کے لیے نیٹو مکمل طور پر متحد ہے۔
بین الاقوامی مبصرین کے مطابق، ٹرمپ کا پیوٹن سے ملاقات منسوخ کرنے کا فیصلہ ایک واضح پیغام ہے کہ امریکہ اب روس سے کسی نرمی کے موڈ میں نہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ پالیسی جاری رہی تو روس کو شدید معاشی نقصان اور عالمی سطح پر مزید تنہائی کا سامنا کرنا پڑے گا، جو آخرکار یوکرین جنگ کے اختتام کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔