لاہور: لاہور ہائیکورٹ نے صوبائی حکومت اور متعلقہ اداروں کو سموگ کے تدارک کے لیے کیے گئے اقدامات کی جامع عملدرآمد رپورٹ 12 نومبر تک پیش کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ عدالت نے کہا کہ اگر فوری اور مؤثر حکمتِ عملی نہ اپنائی گئی تو لاہور کی فضا مزید زہریلی ہو جائے گی۔
جسٹس شاہد کریم نے سموگ سے متعلق مختلف درخواستوں پر سماعت کے دوران برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ متعلقہ محکمے صرف اکتوبر کے مہینے میں بیدار ہوتے ہیں، جبکہ عملی اقدامات پورے سال ہونے چاہئیں تاکہ شہریوں کو سانس لینے کے لیے صاف ہوا میسر آ سکے۔
سماعت کے دوران کمیشن کے رکن نے عدالت کو آگاہ کیا کہ رات 11 بجے کے بعد شہر میں بھاری ٹریفک کے داخلے سے آلودگی میں نمایاں اضافہ ہوتا ہے، جس سے سموگ کی شدت بڑھ رہی ہے۔ ڈی آئی جی موٹر وے پولیس نے بتایا کہ ماضی میں بھی پولیس نے سموگ کنٹرول مہم میں معاونت فراہم کی تھی اور اب بھی مکمل تعاون کے لیے تیار ہے۔
عدالت نے پی ایچ اے سے پارکوں میں بنائے گئے ریسٹورینٹس، باربی کیو زونز اور دیگر تجارتی سرگرمیوں کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے استفسار کیا کہ عوامی تفریح کے مقامات کو تجارتی بنیادوں پر کیوں استعمال کیا جا رہا ہے؟ جسٹس شاہد کریم نے ریمارکس دیے کہ اگر آمدنی ہی مقصد ہے تو پھر لاہور کے تمام درخت کاٹ دیے جائیں، مگر یہ پالیسی ناقابلِ قبول ہے۔
عدالت نے مزید کہا کہ پارکس، درختوں اور سبزے کو نقصان پہنچانے والی ہر سرگرمی فوری روکی جائے، جبکہ کنٹونمنٹ بورڈ سے ایک نجی بیکری کے سامنے درخت کاٹنے کے واقعے کی رپورٹ بھی طلب کر لی گئی۔
عدالت نے اپنے حکم میں واضح کیا کہ سموگ پر قابو پانے کے لیے ٹریفک کنٹرول، گاڑیوں کی فٹنس چیک، رات کے اوقات میں ہیوی ٹریفک پر پابندی اور ماحولیاتی ضوابط پر سختی سے عملدرآمد ضروری ہے۔ تمام اداروں کو ہدایت دی گئی ہے کہ 12 نومبر تک عملی پیش رفت کی تفصیلی رپورٹ عدالت میں جمع کرائی جائے۔

