بھارت نے مغربی پابندیوں کے خدشات اور امریکی دباؤ کے باعث روس سے تیل کی خریداری تقریباً بند کر دی ہے۔ عالمی منڈی میں اس فیصلے کو خطے میں توانائی کے توازن پر اہم اثر ڈالنے والا قدم قرار دیا جا رہا ہے۔
امریکی جریدے بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق بھارت نے دسمبر کے لیے روسی خام تیل کے نئے آرڈرز نہیں دیے، حالانکہ عمومی طور پر بھارتی ریفائنریز موجودہ ماہ کی 10 تاریخ تک آئندہ ماہ کے لیے آرڈرز مکمل کر لیتی ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارت کی پانچ بڑی آئل ریفائنریز نے آئندہ ماہ کے لیے روسی تیل خریدنے سے گریز کیا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نئی دہلی امریکی دباؤ کے تحت اپنی درآمدی پالیسی میں بڑی تبدیلی کر رہی ہے۔
بھارتی سرکاری ریفائنری “انڈین آئل کارپوریشن” (IOC) نے بھی واضح کیا ہے کہ وہ اب صرف ایسے سپلائرز سے روسی خام تیل خریدے گی جو کسی بین الاقوامی پابندی کے تابع نہیں ہوں گے۔ کمپنی کے مطابق یہ فیصلہ ممکنہ امریکی معاشی پابندیوں سے بچنے کے لیے کیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ روس سے تیل کی خریداری کے معاملے پر امریکا نے بھارت پر 50 فیصد ٹیرف عائد کیا تھا۔ اس اقدام کے بعد بھارت کو عالمی سطح پر شدید مالی دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔
اس معاملے پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے حالیہ بیان میں کہا کہ بھارت ایک غیر متوازن تجارتی پارٹنر بن چکا ہے، کیونکہ وہ روس سے سستا تیل خرید کر بالواسطہ طور پر یوکرین جنگ میں روس کی “وار مشین” کو ایندھن فراہم کر رہا ہے۔
امریکی دباؤ کے نتیجے میں بھارت نے واشنگٹن کو یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ مستقبل میں روسی تیل کی خریداری محدود یا مکمل طور پر بند کر دے گا۔ تاہم، ماہرین کے مطابق بھارت کا یہ فیصلہ اس کی توانائی پالیسی اور تیل کی قیمتوں پر گہرے اثرات ڈالے گا، کیونکہ روس اب تک بھارت کو رعایتی نرخوں پر خام تیل فراہم کرتا رہا ہے۔
اقتصادی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت کو اب اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے مشرقِ وسطیٰ کے مہنگے ذرائع سے تیل خریدنا پڑے گا، جس سے مہنگائی میں مزید اضافہ اور تجارتی خسارے میں وسعت کا امکان ہے۔ دوسری جانب، روس کے لیے بھی بھارت کی یہ پالیسی تبدیلی ایک بڑا دھچکا ہے کیونکہ وہ اپنے سب سے بڑے خریداروں میں سے ایک کو کھو رہا ہے۔

