قومی اسمبلی کے اجلاس میں واٹس ایپ ہیکنگ اور بڑھتے ہوئے سائبر کرائمز کے معاملے پر ارکان نے شدید تشویش کا اظہار کیا اور متعدد شکایات سامنے آئیں۔
ارکان نے بتایا کہ تقریباً 25 فیصد پارلیمنٹیرینز سائبر کرائمز کا شکار ہیں، اور شکایات کے باوجود کوئی مؤثر کارروائی نہیں کی جاتی۔ پارلیمانی سیکرٹری وزارت آئی ٹی سبین غوری نے کہا کہ یہ معاملہ وزارت داخلہ کا ہے، وزارت آئی ٹی کا نہیں۔
وقفہ سوالات کے دوران ارکان نے بڑھتے ہوئے سائبر کرائمز اور واٹس ایپ ہیکنگ کے واقعات کا تذکرہ کیا۔ عالیہ کامران نے کہا کہ 25 فیصد ارکان کے واٹس ایپ اکاؤنٹس ہیک ہو رہے ہیں اور ہیکرز رشتہ داروں سے پیسے مانگتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ معاملہ ریکارڈ پر لایا گیا، لیکن کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ نبیل گبول نے بھی بتایا کہ ان کے ساتھ ایک سال سے ایسا ہی واقعہ ہے اور شکایت کے باوجود کوئی حل نہیں نکلا۔
سبین غوری نے کہا کہ یہ وزارت آئی ٹی کا معاملہ نہیں، وزارت داخلہ اس کا ذمہ دار ہے۔ جن ارکان کے اکاؤنٹس ہیک ہوئے ہیں اور جنہوں نے آن لائن شکایت درج کرائی ہے، وہ تفصیلات فراہم کریں تاکہ انہیں ایف آئی اے سائبر کرائمز ونگ کو بھیجوا سکیں۔
میر منور تالپور نے بھی بتایا کہ ان کے نام پر کسی نے ریسٹ ہاؤس بک کروا لیا، جبکہ انہیں اس کا علم ہی نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں سلو انٹرنیٹ کے مسائل بھی وزارت داخلہ کی قائمہ کمیٹی کو بھیج دیے گئے ہیں۔
اجلاس میں دیگر امور میں، سری لنکن ٹیم کے دورہ پاکستان جاری رکھنے پر اظہار تشکر کی قرارداد کثرت رائے سے منظور کی گئی۔ قومی اسمبلی نے ٹرانسجینڈر اور گھریلو تشدد کی روک تھام سے متعلق بل بھی منظور کیا، تاہم جے یو آئی کی خواتین ارکان نعیمہ کشور، عالیہ کامران اور شاہدہ اختر علی نے بل کو شریعت کے خلاف قرار دیا۔

