برطانوی جریدے "دی اکانومسٹ” نے سابق وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی پر خصوصی رپورٹ میں سنگین سوالات اٹھا دیے
برطانوی جریدے دی اکانومسٹ نے اپنی رپورٹ میں الزام عائد کیا ہے کہ عمران خان کی تیسری شادی نے ان کے انداز حکمرانی اور سیاسی فیصلوں پر گہرے اثرات چھوڑے۔
رپورٹ کے مطابق بشریٰ بی بی کے مزعومہ روحانی اثر و رسوخ نے وزیراعظم ہاؤس میں فیصلہ سازی کے طرز کو بدل کر رکھ دیا تھا، اور حکومتی مشاورت کے بجائے روحانی مشوروں کی اہمیت بڑھتی چلی گئی تھی۔ سینئر صحافی اوون بینیٹ جونز نے لکھا کہ عمران خان کے قریبی حلقوں میں یہ تاثر عام تھا کہ تقرریوں، تبادلوں اور سرکاری فیصلوں پر بشریٰ بی بی اثر انداز ہوتی تھیں۔ اس صورتحال نے سیاسی اور انتظامی حلقوں میں سنجیدہ سوالات پیدا کیے کہ اصلاحات کے دعویدار وزیراعظم نے اپنی حکومت کو روحانی سائے میں کیوں چلایا؟ رپورٹ میں یہ خیال بھی پیش کیا گیا کہ عمران خان اپنے ہی اعلان کردہ ایجنڈے کو عملی جامہ پہنانے میں ناکام رہے کیونکہ فیصلوں میں ذاتی عقائد کو فوقیت حاصل ہوگئی تھی۔
مزید برآں، رپورٹ میں بعض مبصرین کا حوالہ دیا گیا ہے جن کے مطابق حساس اداروں میں موجود چند لوگ مبینہ طور پر خفیہ معلومات براہ راست بنی گالہ پہنچاتے رہے، جنہیں بشریٰ بی بی اپنے “روحانی انکشافات” کے طور پر عمران خان کے سامنے پیش کرتی تھیں۔ اس نے حکومتی ڈھانچے کے اندر ایسی غیر رسمی اور غیر مرئی طاقت کے تصور کو جنم دیا جس نے جمہوری عمل کے معیار کو خطرے میں ڈالا۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان جیسے حساس جغرافیے اور ایٹمی حیثیت رکھنے والے ملک میں ایسی صورتحال نہایت تشویشناک تھی جہاں پالیسی اور ریاستی امور کو توہمات اور روحانیت کے تابع کردیا جائے۔
رپورٹ کی شریک مصنفہ بشریٰ تسکین نے کہا کہ جب انہوں نے تحقیق شروع کی تو انہیں معلوم ہوا کہ عمران خان اور بشریٰ بی بی کے روحانی معاملات اور جادو ٹونے سے متعلق بہت سی باتیں پاکستان میں عام ہیں، لیکن عالمی فورمز پر یہ اب تک واضح انداز میں سامنے نہیں آئی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے لیے یہ حیران کن معلومات تھیں کہ ایک بڑی سیاسی جماعت کا سربراہ اہم حکومتی فیصلے روحانی مشوروں کے تحت کرتا تھا۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ کالے جادو سے متعلق جب جمائمہ نے ماضی میں ٹوئٹ کی تھی تو بین الاقوامی میڈیا نے اس پر توجہ نہ دی، لیکن ہم نے تمام متعلقہ شواہد اکٹھے کرکے اس معاملے کو ایک سنجیدہ صحافتی تحقیق کے طور پر سامنے لانے کی کوشش کی۔
رپورٹ میں یہ بھی شامل ہے کہ جب اس شادی اور روحانی اثر و رسوخ کے بارے میں بشریٰ بی بی کے سابق شوہر خاور مانیکا سے پوچھا گیا تو انہوں نے بھرپور ردعمل دیتے ہوئے کہا: “Bushra Bibi is an evil genius”۔ ان کے مطابق بشریٰ بی بی نہ صرف عمران خان کی زندگی میں داخل ہوئیں بلکہ اپنی خواہشات اور منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے میں بھی کامیاب رہیں۔ بشریٰ تسکین نے کہا کہ ان کا سب سے بڑا سرپرائز یہ تھا کہ جب خبر آئی کہ عمران خان نے اپنے پیر سے شادی کرلی ہے تو یہ عالمی صحافت کے لیے ایک ناقابل یقین واقعہ تھا کیونکہ یہ دور جدید کی سیاست میں شاید منفرد ترین مثال ہے۔
شریک مصنفہ نے یہ بھی بتایا کہ انہوں نے مختلف روحانی شخصیات اور ماہرین سے بھی سوالات کیے کہ آیا کوئی پیر اپنے مرید سے شادی کرسکتا ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ اکثریت نے اس تصور کو مسترد کیا اور کہا کہ یہ روحانی پیشوائی کے بنیادی اصول کے خلاف ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر واقعی بشریٰ بی بی کے پاس کوئی ماورائی طاقت ہوتی تو پھر عمران خان، ان کی حکومت اور پارٹی کا وہ انجام نہ ہوتا جو سب کے سامنے ہے، کیونکہ نہ سیاسی اعتبار سے کامیابی ملی اور نہ عوامی حمایت برقرار رہ سکی۔ ان کے مطابق حکومت پاکستان کے روزمرہ امور کو علم و جادو کے ذریعے چلانا ایک ایسا انکشاف ہے جو ملکی نظام کی کمزوریوں کو عیاں کرتا ہے۔
آخر میں رپورٹ اس بات پر بھی روشنی ڈالتی ہے کہ 25 کروڑ نفوس کے حامل، ایک ایٹمی طاقت رکھنے والے ملک میں اگر فیصلوں کا مرکز نجومیوں، توہمات اور روحانیت بن جائے تو یہ قومی سلامتی، جمہوریت اور گورننس کے لیے ایک تشویشناک معاملہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق عمران خان کے قریبی وزراء اور ساتھیوں نے بھی تسلیم کیا کہ ان کی ناکامی کی اصل وجہ بدانتظامی تھی، نہ کہ وہ قوتیں جنہیں عمران خان نے بعد میں اپنا سیاسی بیانیہ بنانے کے لیے استعمال کیا۔ دی اکانومسٹ کے مطابق عمران خان کے دعوے اور ان کی حکومتی کارکردگی میں تضاد نے ملک کو نقصان پہنچایا اور پارٹی کو موجودہ سیاسی بحران تک پہنچانے میں مرکزی کردار ادا کیا۔

