کراچی میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر ہونے والے ای چالان کے بھاری جرمانوں نے شہریوں کی توجہ اور تشویش میں غیر معمولی اضافہ کر دیا ہے۔
شہریوں کا کہنا ہے کہ اگرچہ ٹریفک نظم و ضبط کے لیے قانون نافذ کرنا ضروری ہے مگر جرمانوں کی موجودہ شرح نہ صرف زیادہ ہے بلکہ عام آدمی کی استطاعت سے باہر ہوتی جا رہی ہے۔ خاص طور پر ایسے شہری جو موٹر سائیکل یا چھوٹی گاڑیوں کے ذریعے روزانہ دفتر، تعلیمی اداروں یا روزگار کے سلسلے میں سفر کرتے ہیں، بھاری ای چالان ان پر واضح مالی بوجھ بن چکے ہیں۔ اسی صورتحال کے پیش نظر عوامی حلقوں میں یہ بحث شدت اختیار کر گئی کہ دیگر صوبوں میں ای چالان کے جرمانے نسبتاً کم ہیں لیکن کراچی میں معمولی خلاف ورزی پر بھی زیادہ رقم کی ادائیگی لازمی قرار پا جاتی ہے، جس سے مہنگائی کے دور میں شہری مزید پریشانی کا شکار ہیں۔
پولیس حکام بھی اب اس عوامی ردعمل کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں اور ذرائع کے مطابق اندرونی سطح پر مشاورت جاری ہے کہ آیا جرمانوں کی رقم میں نرمی کی جائے یا خلاف ورزی کی نوعیت کے مطابق ای چالان کی درجہ بندی کو مزید واضح کیا جائے۔ ایک اعلیٰ پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سندھ حکومت کی مشاورت سے چند حفاظتی نوعیت کی خلاف ورزیوں پر جرمانوں میں کمی کا فیصلہ آئندہ ہفتے تک متوقع ہے، تاہم ایسی سنگین اور جان لیوا خلاف ورزیاں جیسے سگنل توڑنا، تیز رفتاری اور غلط سائیڈ پر ڈرائیونگ کے خلاف کارروائی مزید سخت کرنے کی تجویز پیش کی جا رہی ہے تاکہ شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے۔
ٹریفک پولیس کا مؤقف ہے کہ ای چالان نظام جدید شہروں میں ٹریفک کنٹرول اور مانیٹرنگ کا بنیادی جزو ہے، اور کراچی میں اسے مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لیے پولیس نے اعلان کیا ہے کہ جلد ایک بھرپور آگاہی مہم شروع کی جائے گی جس میں شہریوں کو ٹریفک قوانین، کیمرہ پوائنٹس اور جرمانوں کی نئی درجہ بندی سے متعلق تفصیلی معلومات فراہم کی جائیں گی۔ حکام کے مطابق مکینکلی فٹ گاڑیوں، ہیلمٹ کے استعمال اور کم عمر ڈرائیورز کی روک تھام کے لیے بھی سخت نگرانی کا نظام متعارف کرانے پر غور ہو رہا ہے، تاکہ حادثات میں کمی لائی جا سکے۔
شہریوں کا خیال ہے کہ اگر حکومت اور ٹریفک پولیس شفافیت برقرار رکھتے ہوئے قوانین میں مناسب نرمی اور بہتری لائے تو نہ صرف عوامی بوجھ کم ہوگا بلکہ ٹریفک نظم و ضبط میں بھی واضح بہتری آئے گی۔ تاہم سب کی نظریں آئندہ چند دنوں میں سامنے آنے والے سرکاری فیصلوں پر ہیں، جن سے یہ طے ہوگا کہ آیا عوام کے مطالبات سنے گئے یا موجودہ سخت پالیسی برقرار رکھی جائے گی۔

