پاکستان نے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ایگزیکٹیو بورڈ اجلاس سے قبل اہم شرط پوری کرتے ہوئے وزارت خزانہ نے گورننس اینڈ کرپشن ڈائیگناسٹک اسیسمنٹ کی تکنیکی رپورٹ جاری کر دی۔
رپورٹ میں ملک میں کرپشن کو معاشی اور سماجی ترقی کی سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا گیا ہے اور ٹیکس نظام، سرکاری اخراجات، احتساب اور عدالتی نظام میں سنگین خامیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق طاقتور یا سرکاری اداروں سے جڑے گروہ کرپشن کی سب سے خطرناک شکل ہیں، اور یہ دیرینہ مسئلہ پاکستان کی ترقی کو شدید نقصان پہنچا رہا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومتی فیصلہ سازی میں شفافیت کی کمی اور اینٹی کرپشن اداروں کی کمزور کارکردگی کے باعث احتساب کا عمل متاثر ہو رہا ہے اور عوام کا اعتماد مزید کم ہوا ہے۔ نیب سمیت اینٹی کرپشن اداروں کو بااختیار اور جدید بنانے پر زور دیا گیا ہے، اور رپورٹ کے مطابق سفارشات پر عمل درآمد سے ملکی جی ڈی پی میں 5 سے ساڑھے 6 فیصد تک اضافہ ممکن ہے۔ اس کے علاوہ معاشی پالیسیوں کی تیاری میں اسٹیک ہولڈرز کی شمولیت نہ ہونے کے برابر ہے۔
رپورٹ میں کاروباری اداروں کی رائے کے مطابق 11.1 فیصد نے بدعنوانی کو سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا، جو جنوبی ایشیا کے اوسط 7.4 فیصد سے کافی زیادہ ہے۔ کرپشن کی وجہ سے سرکاری اخراجات غیر موثر، ٹیکس وصولی کم، عدالتی نظام پر اعتماد کم اور سرکاری اداروں میں جوابدہی کا موثر نظام موجود نہیں۔ کاروباری قوانین کی پیچیدگی اور غیر موثر مارکیٹ ریگولیشن سرمایہ کاری میں رکاوٹ بن رہی ہے۔ رپورٹ میں شفاف اور واضح قوانین، اوپن ڈیٹا نظام، عوام اور کاروباری طبقے کی شمولیت بڑھانے اور نجی شعبے کو زیادہ اختیارات دینے کی سفارش کی گئی ہے۔
علاوہ ازیں غیر ملکی تجارت کے ضوابط میں اصلاحات، حکومتی مداخلت میں کمی اور کاروباری ریگولیشن کو آسان اور ڈیجیٹل بنانے کی سفارش کی گئی ہے۔ وزارت خزانہ کے مطابق یہ رپورٹ آئی ایم ایف کے 7 ارب ڈالر قرض پروگرام کا حصہ ہے، اور 8 ماہ کے جائزے کے بعد حکومتی اقدامات سے معیشت میں استحکام آیا ہے، پرائمری سرپلس اور زرمبادلہ ذخائر میں اضافہ ہوا اور مہنگائی میں کمی آئی۔ بہتر گورننس اور کرپشن میں کمی سے پاکستان میں سرمایہ کاری میں اضافہ متوقع ہے۔

