پاکستانی اداکار اور ماڈل اسد صدیقی نے کم عمر بچوں کو اسکول بھیجنے کے بڑھتے رجحان کو ’حماقت‘ قرار دیتے ہوئے والدین اور اسکول سسٹم دونوں پر سخت تنقید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 1.5 سال کے بچوں کو اسکول بھیجنا غیر فطری، غیر ضروری اور محض پیسہ کمانے کا ہتھکنڈہ ہے۔
پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کے معروف اداکار اسد صدیقی نے حالیہ ٹی وی انٹرویو میں بچوں کی ابتدائی تعلیم اور اسکول داخلے کے حوالے سے اہم گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ والدین کے درمیان ایک غیر صحت مند مقابلہ بازی نے جنم لیا ہے، جس میں ہر کوئی چاہتا ہے کہ اس کا بچہ دوسرے بچوں سے پہلے اسکول میں داخل ہوجائے۔ اس رجحان کے باعث والدین ایسے فیصلے کر لیتے ہیں جو بچوں کی فطری نشوونما اور ذہنی آسودگی کے خلاف ہیں۔ اسد صدیقی نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ "ایک سال یا ڈیڑھ سال کا بچہ ابھی دنیا کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے، اسے اسکول جیسی پابند جگہ میں ڈال دینا دشوار اور غیر دانشمندانہ عمل ہے۔”
اپنی گفتگو میں انہوں نے تعلیم کے موجودہ نظام پر بھی تنقید کی اور کہا کہ زیادہ تر بڑے اسکولز صرف کاروباری ادارے بن چکے ہیں، جن کا مقصد بچوں کی عمر یا ضرورت نہیں بلکہ سالانہ فیس اور منافع ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسے اسکولز والدین کو یہ احساس دلاتے ہیں کہ اگر بچہ ابتدائی عمر میں داخل نہ ہوا تو وہ پیچھے رہ جائے گا، حالانکہ تحقیق اور مشاہدہ اس کے برعکس ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ جب بچے بہت کم عمر میں اسکول جاتے ہیں تو ان پر ذہنی دباؤ بڑھ جاتا ہے، ان کی شخصیت میں بےاعتمادی، خوف اور غیر ضروری مقابلہ بازی پیدا ہوتی ہے۔
اداکار نے اس حوالے سے عالمی مثال دیتے ہوئے بتایا کہ دنیا کا بہترین تعلیمی نظام رکھنے والے ملک فن لینڈ میں قانون کے مطابق بچے 7 سال کی عمر سے پہلے اسکول نہیں جا سکتے۔ اس پالیسی کے پیچھے سائنسی بنیادیں موجود ہیں جن کے مطابق 7 سال سے قبل بچے کا ذہن رسمی تعلیم کے لیے تیار ہی نہیں ہوتا۔ اس عمر تک بچوں کو کھیل، مشاہدہ، گھریلو سرگرمیوں اور والدین سے وقت حاصل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، جو ان کی ذہنی اور تخلیقی نشوونما کے لیے سب سے اہم عوامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اسکولنگ سسٹم بچوں میں طبقاتی فرق، برتری کے احساس اور غیر ضروری مقابلے کی فضا پیدا کرتا ہے، جس کا اثر آگے چل کر ان کی شخصیت پر پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ "جب ایک بچہ کم عمری میں مہنگے اسکولز، مختلف طبقات، برانڈز اور سہولیات دیکھتا ہے تو اس کے ذہن میں تقسیم کی بنیاد پڑنے لگتی ہے، جو ایک صحت مند معاشرے کے لیے مناسب نہیں۔”
گفتگو کے دوران انہوں نے یہ بھی کہا کہ اسلامی تعلیمات میں بھی والدین کو بچوں کی ابتدائی تربیت کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام میں چھوٹی عمر کے بچوں کو محبت، وقت اور بنیادی تربیت دینے پر زور دیا گیا ہے، جبکہ باقاعدہ تعلیم بعد کے برسوں میں بہتر سمجھی جاتی ہے۔ ان کے مطابق "والدین بچے کے پہلے استاد ہوتے ہیں، اور اگر وہ اپنی ذمہ داری پوری کریں تو گھر ہی بچے کی سب سے پہلی اور بہترین درسگاہ بن جاتا ہے۔”
آخر میں اسد صدیقی نے والدین کو مشورہ دیا کہ وہ بچوں کو ان کی فطری رفتار سے بڑے ہونے دیں، انہیں وقت دیں، ان کے ساتھ کھیلیں، بات کریں، اور ابتدائی عمر میں غیر ضروری دباؤ ڈالنے سے گریز کریں۔ انہوں نے کہا کہ مناسب عمر میں جب بچے اسکول جاتے ہیں تو وہ زیادہ بہتر سیکھتے ہیں، زیادہ پراعتماد ہوتے ہیں اور زندگی کے اگلے مراحل کے لیے مضبوط بنیاد حاصل کرتے ہیں۔

