اسلام آباد/کابل: افغانستان سے پاکستان میں جاری سرحدی دراندازی کے مسئلے پر مثبت پیشرفت سامنے آئی ہے۔ کابل میں افغان علما اور مذہبی رہنماؤں کا اہم اجلاس منعقد ہوا جس میں زور دیا گیا کہ کوئی بھی فرد عسکریت پسندی یا سرحد عبور کر کے بیرونِ ملک جارحانہ سرگرمیوں میں حصہ نہ لے۔
ذرائع نے طلوع نیوز کو تصدیق کی ہے کہ اجلاس میں شریک علما اور مشائخ نے کہا کہ اپنے حقوق، اقدار اور شرعی نظام کا دفاع ہر فرد پر فرض ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ کسی بھی دوسرے ملک کے خلاف عسکری سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
کابل میں ہونے والے اجلاس میں اسلامی امارت سے بھی مطالبہ کیا گیا کہ امارتِ اسلامی افغانستان کے رہبر کے حکم کی روشنی میں کسی کو بھی بیرونِ ملک عسکری سرگرمیوں کے لیے جانے کی اجازت نہ دی جائے، اور افغانستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہو۔ اعلامیے میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ اگر کوئی اس فیصلے کی خلاف ورزی کرے تو اسلامی امارت کے پاس اس کے خلاف کارروائی کا مکمل اختیار موجود ہے۔
ذرائع کے مطابق اس اجلاس میں تقریباً ایک ہزار افغان مذہبی رہنما اور عمائدین نے شرکت کی اور اختتام پر اس فیصلے کی بنیاد پر باضابطہ اعلامیہ جاری کیا گیا۔ پاکستانی وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ اگر سرحدی حدود کی خلاف ورزی ہوئی تو پاکستان کی جانب سے جواب دینا پڑا تو دیا جائے گا۔ اس اجلاس کے بعد افغان علما اور عمائدین کے بیانات سے پاکستان کے دیرینہ مطالبے کی توثیق بھی ہو گئی ہے۔
پاکستان کی جانب سے بارہا افغان طالبان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ کریں، تاہم افغان طالبان کی پالیسی جارحانہ رہی اور سرحد پار سے پاکستان میں دراندازی کی کوششیں جاری رہیں۔ یاد رہے کہ پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان استنبول میں تین مذاکراتی ادوار ہوئے لیکن افغان طالبان کی ہٹ دھرمی کے باعث مذاکرات نتیجہ خیز ثابت نہ ہوئے۔ ان مذاکرات کے دوران افغان وفد بار بار کابل اور قندہار سے ہدایات لیتا رہا جس سے مذاکرات کا وقت ضائع ہوتا رہا۔
ان مذاکرات میں پاکستان نے افغان طالبان سے تحریری ضمانت طلب کی تھی کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہوگی، لیکن افغان طالبان یہ تحریری ضمانت دینے میں ناکام رہے۔ کابل میں ہونے والے علما کے اجلاس کے بیانات سے پاکستان کو امید ہے کہ آئندہ سرحدی دراندازی کی کوششوں کو محدود کرنے میں مدد ملے گی۔

