اسلام آباد: پاکستان نے 7 ارب ڈالر کے قرض پروگرام کے تحت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی توانائی، مالیاتی، سماجی، اسٹرکچرل، مانیٹری اور کرنسی سے متعلق 23 شرائط تسلیم کر لی ہیں۔ آئی ایم ایف سے طے پانے والے معاہدے کے تحت حکومت نے ترقیاتی اخراجات میں کمی، نئے ٹیکس اقدامات اور مختلف شعبوں میں اصلاحات پر عمل درآمد کی یقین دہانی کرا دی ہے۔
ذرائع کے مطابق پاکستان نے آئی ایم ایف سے اتفاق کیا ہے کہ ترقیاتی اسکیموں میں کمی لائی جائے گی، جبکہ کھاد اور کیڑے مار ادویات پر ایکسائز ڈیوٹی میں 5 فیصد اضافہ کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ اعلیٰ قیمت والی میٹھی اشیاء پر نئی ایکسائز ڈیوٹی متعارف کرانے اور منتخب اشیاء کو معیاری شرح پر منتقل کر کے سیلز ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کیا جائے گا، جس کے تحت بعض اشیاء پر جی ایس ٹی کی شرح 18 فیصد تک بڑھائی جائے گی۔
حکومت نے آئی ایم ایف کو یہ بھی یقین دہانی کرائی ہے کہ شوگر سیکٹر کو مکمل طور پر ڈی ریگولیٹ کر دیا جائے گا۔ توانائی کے شعبے میں بجلی کے نرخوں میں ایڈجسٹمنٹ کا عمل جاری رکھا جائے گا، سسٹم لاسز کم کیے جائیں گے اور لاگت میں کٹوتی کے اقدامات کیے جائیں گے۔
آئی ایم ایف رپورٹ کے مطابق ملک بھر کے 40 ہزار بڑے خوردہ فروشوں کے لیے پوائنٹ آف سیل (POS) سسٹم کی تنصیب آئندہ دو برسوں میں مکمل کی جائے گی، جبکہ چاروں صوبے ہم آہنگ سیلز ٹیکس نظام اپنانے کی جانب پیش رفت کریں گے۔
توانائی کے شعبے سے متعلق آئی ایم ایف کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تمام صوبوں نے بجلی اور گیس پر کسی بھی نئی سبسڈی نہ دینے سے اتفاق کیا ہے۔ اسی طرح نئے آر ایل این جی کے لیے اضافی بیرونی معاہدوں پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ اوگرا کو 40 دن کے اندر ٹیرف تعین کی ایڈوائس دی جائے گی، جس پر فوری نوٹیفکیشن جاری کیا جائے گا۔
معاہدے کے تحت کسی بھی سرمایہ کاری منصوبے یا کمپنی کو مالی مراعات یا حکومتی گارنٹی دینے سے روک دیا گیا ہے۔ کسی قسم کی فیول سبسڈی یا کراس سبسڈی اسکیم متعارف نہیں کرائی جائے گی، جبکہ کسی بھی شعبے کے لیے مخصوص قرض اہداف مقرر کرنے یا قرضوں کو مختص کرنے کے فیصلے بھی نہیں کیے جائیں گے۔
اسٹیٹ بینک سے متعلق شرائط میں واضح کیا گیا ہے کہ حکومتی سکیورٹیز کے خاتمے پر مزید توسیع یا مارکیٹ خریداری کو ختم کر دیا گیا ہے۔ قرض پروگرام کے دوران اسٹیٹ بینک کوئی نئی قرض اسکیم متعارف نہیں کرائے گا اور کرنسی کی قدر کو لچکدار رکھا جائے گا۔
گندم کے شعبے میں بھی بڑی تبدیلیاں طے کی گئی ہیں، جن کے تحت وفاقی یا صوبائی سطح پر امدادی قیمت مقرر نہیں کی جائے گی اور درآمدات پر کسی نئی ریگولیٹری ڈیوٹی کا نفاذ نہیں ہوگا۔ اسی طرح ایس آئی ایف سی سرمایہ کاری کے لیے کسی قسم کی مراعات تجویز نہیں کرے گی اور نہ ہی حکومت ٹیکس مراعات یا گارنٹیز فراہم کرے گی۔ ایس آئی ایف سی کے تحت آنے والی تمام سرمایہ کاری کو اسٹینڈرڈ پبلک انویسٹمنٹ مینجمنٹ فریم ورک کے تحت یقینی بنایا جائے گا۔
آئی ایم ایف نے نئے اسپیشل اکنامک زونز یا دیگر زونز قائم کرنے، انہیں مراعات دینے اور موجودہ مراعات کی تجدید پر بھی پابندی عائد کر دی ہے۔
ادائیگیوں کے بڑھتے ہوئے خسارے اور آئی ایم ایف پروگرام کی مدت مکمل ہونے کے بعد خسارے کے 3.3 ارب ڈالر کی بلند سطح تک پہنچنے کے تناظر میں پاکستان نے آئی ایم ایف کے ساتھ کھاد، کیڑے مار ادویات اور میٹھی اشیاء پر ٹیکس بڑھانے کے ساتھ ساتھ منتخب اشیاء پر جی ایس ٹی کی شرح 18 فیصد تک لے جانے پر اتفاق کیا ہے۔

