امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا ہے کہ پاکستان سمیت چند دیگر ممالک نے غزہ میں امن و امان کے قیام کے لیے اپنے فوجی دستے بھیجنے سے متعلق امریکا سے سوالات کیے ہیں اور ان سوالات کے بعد غزہ میں فوجی دستے بھیجنے پر غور کرنے کی پیش کش کی ہے، جس پر امریکا پاکستان کا شکر گزار ہے۔
امریکی وزارتِ خارجہ میں پریس کانفرنس کے دوران مارکو روبیو سے سوال کیا گیا کہ کیا پاکستان نے امریکا کو باضابطہ طور پر اس بات سے آگاہ کر دیا ہے کہ وہ غزہ میں امن و امان کے قیام کے لیے اپنے فوجی دستے بھیجنے پر رضامند ہے؟ اس سوال کے جواب میں امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ امریکا پاکستان کا شکر گزار ہے کہ اس نے غزہ امن منصوبے کا حصہ بننے یا کم از کم اس پر غور کرنے کی پیش کش کی ہے۔
مارکو روبیو نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خیال میں پاکستان سمیت دیگر ممالک ابھی اس منصوبے سے متعلق کچھ اہم سوالات کے جواب چاہتے ہیں اور انہی سوالات کے حل کے بعد ہی امریکا کسی ملک سے یہ باضابطہ طور پر کہہ سکے گا کہ وہ غزہ امن منصوبے کے لیے اپنی خدمات پیش کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک حساس اور پیچیدہ معاملہ ہے جس میں تمام فریقین کی رضامندی اور اعتماد انتہائی ضروری ہے۔
امریکی وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ انہیں پورا یقین ہے کہ دنیا میں ایسے کئی ممالک موجود ہیں جو اس تنازعے میں شریک تمام فریقوں کے لیے قابلِ قبول ہیں اور جو آگے بڑھ کر غزہ اسٹیبلائزیشن یا استحکام فورس کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔ ان کے مطابق امریکا چاہتا ہے کہ غزہ میں امن و استحکام کے لیے ایک ایسا بین الاقوامی فریم ورک تشکیل دیا جائے جس میں علاقائی اور عالمی سطح پر قابلِ قبول ممالک کردار ادا کریں۔
مارکو روبیو کے اس بیان کو غزہ کی صورتحال میں ایک اہم سفارتی پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے، کیونکہ پاکستان سمیت دیگر ممالک کی ممکنہ شمولیت سے غزہ میں امن و امان کے قیام کی کوششوں کو تقویت مل سکتی ہے۔ تاہم حتمی فیصلے سے قبل مختلف ممالک کے خدشات اور سوالات کا حل تلاش کرنا امریکا کی اولین ترجیح ہے۔

