فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈز نے آج اپنے ترجمان اور تنظیم کے میڈیا ونگ کے سربراہ حذیفہ الکحلوت کی شہادت کا باضابطہ اعلان کر دیا ہے، جو دنیا بھر میں ابو عبیدہ کے نام سے معروف تھے۔ القسام بریگیڈز کے مطابق ابو عبیدہ کی شہادت اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں ہوئی۔
ابو عبیدہ اور دیگر سینئر رہنماؤں کی شہادت کا اعلان القسام بریگیڈز کے نئے ترجمان نے ایک ویڈیو بیان کے ذریعے کیا۔ القسام بریگیڈز نے اپنے نئے ترجمان کا تعارف بھی ابو عبیدہ ہی کے نام سے کروایا ہے، تاکہ مزاحمتی بیانیہ اور جدوجہد کا تسلسل برقرار رہے۔
ابو عبیدہ کون تھے؟
حذیفہ سمیر عبداللہ الکحلوت، جو برسوں تک ابو عبیدہ کے نام سے پہچانے گئے، 1984 میں سعودی عرب میں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان فلسطین سے ہجرت کر کے سعودی عرب آیا تھا۔ حذیفہ الکحلوت کے خاندان کی جڑیں فلسطین کے تاریخی علاقے عسقلان کے گاؤں نجالیہ سے جا ملتی ہیں، جسے 1948 میں صہیونی ملیشیاؤں نے دیگر سینکڑوں فلسطینی شہروں اور دیہاتوں کے ساتھ مسمار کر دیا تھا۔
بچپن ہی میں حذیفہ الکحلوت اپنے خاندان کے ہمراہ سعودی عرب سے ہجرت کر کے شمالی غزہ کے جبالیہ مہاجر کیمپ میں آ کر آباد ہو گئے۔ یہ کیمپ فلسطینی مہاجرین کی جدوجہد، قربانی اور مزاحمت کی علامت سمجھا جاتا ہے، اور یہی ماحول ان کی شخصیت اور فکر کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کرتا رہا۔
تعلیم اور فکری تربیت
حذیفہ الکحلوت نے اسلامک یونیورسٹی آف غزہ میں داخلہ لیا، جہاں انہوں نے شریعت اور دینی علوم کی تعلیم حاصل کی۔ وہ غیر معمولی خطیبانہ صلاحیتوں کے حامل تھے اور عربی زبان پر مکمل عبور رکھتے تھے۔ ان کی گفتگو میں مذہبی استدلال، سیاسی شعور اور زمینی حقائق کا امتزاج نمایاں ہوتا تھا، جس کی وجہ سے وہ فلسطینی مزاحمت کی آواز کو عوام اور دنیا تک مؤثر انداز میں پہنچانے میں کامیاب رہے۔
میڈیا ونگ میں کردار
ابو عبیدہ میدانِ جنگ کی صورتحال بیان کرنے، عسکری کارروائیوں کی تفصیلات دینے اور فلسطینی مزاحمت کے مقامی، علاقائی اور بین الاقوامی تناظر کا تجزیہ پیش کرنے میں مرکزی حیثیت رکھتے تھے۔ ان کے بیانات نہ صرف غزہ بلکہ پورے خطے میں سنے جاتے تھے اور عالمی میڈیا بھی ان پر خصوصی توجہ دیتا تھا۔
میڈیا کے میدان میں ان کے مؤثر کردار کے باعث وہ اسرائیلی شہریوں کے اجتماعی شعور میں ایک نمایاں چہرہ بن گئے تھے، جبکہ اسرائیل کی عسکری اور سیاسی قیادت کے نزدیک وہ ایک اہم اور مرکزی ہدف تصور کیے جاتے تھے۔
جبالیہ مہاجر کیمپ سے مزاحمت کا چہرہ بننے تک
ابو عبیدہ نے سن 2000 میں شروع ہونے والی دوسری انتفاضہ کے دوران حماس میں شمولیت اختیار کی۔ 2004 میں معرکہ ایام الغضب کے دوران جب شمالی غزہ پر اسرائیلی حملوں کا بھرپور جواب دیا گیا، تو اسی عرصے میں ابو عبیدہ پہلی مرتبہ میڈیا کے سامنے آئے۔
غزہ کی ایک مسجد میں ہونے والی اس پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے متعدد مزاحمتی کارروائیوں کا اعلان کیا، اور یہیں سے ان کے طویل میڈیا سفر کا آغاز ہوا۔ رفتہ رفتہ وہ القسام بریگیڈز کی عسکری کامیابیوں، پیغامات اور وارننگز کی سب سے مضبوط آواز بن گئے۔
2006 میں رفح کے مشرق میں اسرائیلی فوجی گیلاد شالیت کی گرفتاری کے اعلان سے لے کر 2014 کی جنگ کے دوران مشرقی غزہ میں ایک گھات میں اسرائیلی فوجی شاؤل آرون کی گرفتاری کے اعلان تک، ابو عبیدہ مسلسل فلسطینی مزاحمت کاروں کی کامیابیوں کی ترجمانی کرتے رہے۔
گزشتہ دو دہائیوں کے دوران انہوں نے ہر مرحلے پر اسرائیلی بیانیے کا مقابلہ کیا، اسرائیلی جنگی جرائم کو بے نقاب کیا اور زمینی لڑائیوں میں اسرائیلی فوجیوں اور افسران کے طرز عمل کو دنیا کے سامنے رکھا۔
معرکہ طوفان اقصیٰ
7 اکتوبر 2023 کو شروع ہونے والے معرکہ طوفان اقصیٰ کے ابتدائی گھنٹوں میں ہی ابو عبیدہ نے مسلسل عسکری بیانات جاری کرنا شروع کر دیے۔ انہوں نے اسرائیلی افواج کو پہنچنے والی عسکری اور انٹیلی جنس شکست، اسرائیلی فوجی اڈوں اور بستیوں پر قبضے اور مزاحمتی کارروائیوں کی تفصیلات دنیا کے سامنے رکھیں۔
ان علاقوں میں وہ دیہات بھی شامل تھے جو 1948 میں فلسطینیوں سے خالی کرائے گئے تھے، جن میں ابو عبیدہ کے اپنے خاندان کی تاریخ سے جڑا قصبہ بھی شامل تھا۔ یہ پہلو ان کے بیانات کو محض عسکری نہیں بلکہ تاریخی اور جذباتی معنویت بھی عطا کرتا تھا۔
اپنے آخری خطاب تک ابو عبیدہ اسرائیلی جرائم کے خلاف عملی کردار ادا کرنے کی اپیل کرتے رہے۔ انہوں نے جدوجہد جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا اور اس معرکے کو دفاع، قربانی اور آزادی کی جدوجہد قرار دیا۔ ان کی شہادت کو فلسطینی مزاحمت میں ایک بڑے نقصان کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، تاہم القسام بریگیڈز کے مطابق یہ قربانی جدوجہد کے عزم کو مزید مضبوط کرے گی۔
