پیر کے روز کراچی میں کھلے مین ہول میں گرنے سے ایک اور معصوم بچے کی جان چلی گئی، جس نے شہر میں بلدیاتی نااہلی اور حفاظتی انتظامات پر ایک بار پھر سنگین سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔
ذرائع کے مطابق رواں سال کراچی میں کھلے مین ہولز اور نالوں میں گرنے کے باعث جاں بحق ہونے والوں کی مجموعی تعداد 27 ہو چکی ہے۔ ان ہلاکتوں میں کمسن بچے، بچیاں اور بالغ مرد شامل ہیں، جو اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ یہ مسئلہ کسی ایک طبقے تک محدود نہیں بلکہ پورے شہر کے لیے ایک مستقل خطرہ بن چکا ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز بھی کراچی کے علاقے کورنگی مہران ٹاؤن میں 8 سالہ بچہ گٹر میں گر کر جاں بحق ہو گیا تھا۔ جاں بحق ہونے والے بچے کی شناخت دلبر کے نام سے ہوئی، جو گھر کے باہر کھیل رہا تھا کہ اچانک کھلے گٹر میں گر گیا۔ افسوسناک طور پر بچے کی لاش اس کے چچا نے اپنی مدد آپ کے تحت گٹر سے باہر نکالی، جبکہ امدادی ادارے بروقت موقع پر نہ پہنچ سکے۔
رواں ماہ کے آغاز میں بھی کراچی کے علاقے گلشن اقبال میں نیپا چورنگی کے قریب ایک اور دل دہلا دینے والا واقعہ پیش آیا تھا، جہاں 3 سالہ بچہ کھلے مین ہول میں گر گیا۔ طویل تلاش کے بعد اس معصوم کی لاش 14 گھنٹے بعد تقریباً ایک کلو میٹر دور نالے سے برآمد ہوئی تھی، جس نے والدین اور اہل علاقہ کو شدید صدمے سے دوچار کر دیا تھا۔
دلخراش امر یہ ہے کہ گلشن اقبال اور کورنگی میں گٹر میں گر کر جاں بحق ہونے والے دونوں بچے اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے، جس کے باعث متاثرہ خاندانوں کا دکھ ناقابلِ بیان ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ بارہا شکایات اور حادثات کے باوجود کھلے مین ہولز کو ڈھانپنے اور نکاسی آب کے نظام کو محفوظ بنانے کے لیے سنجیدہ اقدامات نہیں کیے جا رہے۔
شہری حلقوں اور سماجی تنظیموں نے مطالبہ کیا ہے کہ متعلقہ ادارے فوری طور پر شہر بھر میں کھلے مین ہولز کو بند کریں، ذمہ دار افسران کے خلاف کارروائی کی جائے اور متاثرہ خاندانوں کو انصاف اور معاوضہ فراہم کیا جائے، تاکہ آئندہ کسی اور معصوم جان کو اس غفلت کی بھینٹ نہ چڑھنا پڑے۔

